علامہ اقبال: شاعرِ مشرق، مفکرِ پاکستان
علامہ محمد اقبال کا شمار برصغیر کے ان بلند پایہ مفکرین اور شاعروں میں ہوتا ہے، جنہوں نے مسلمانوں کی فکری، سیاسی اور روحانی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ اقبال کو شاعرِ مشرق، حکیم الامت اور مفکرِ پاکستان جیسے القاب سے نوازا گیا، جو ان کی عظیم شخصیت اور انمول خدمات کی عکاسی کرتے ہیں۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
علامہ اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد اقبال تھا، اور ان کے والد نور محمد تھے۔ علامہ اقبال کے والدین نے ان کی ابتدائی تربیت اور تعلیم پر خاص توجہ دی۔ سیالکوٹ میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، اقبال نے گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ماسٹرز کیا۔ بعد ازاں، اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی کا رخ کیا جہاں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ فلسفے میں ان کی گہری دلچسپی نے انہیں ایک عظیم مفکر اور دانشور بنایا۔
فلسفہ خودی
اقبال کی فکری زندگی میں سب سے اہم عنصر ان کا فلسفۂ خودی ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کو بیداری، خود اعتمادی اور خودشناسی کا درس دینا تھا۔ اقبال کے نزدیک انسانی جوہر اس کی خودی میں پوشیدہ ہے، جو اسے عظمت کی طرف مائل کرتی ہے۔ ان کی شاعری میں فلسفہ خودی کی جھلک نظر آتی ہے، جہاں وہ مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی شناخت کی طرف راغب کرتے ہیں۔
اقبال نے اس فلسفے کو بہت سے مقامات پر واضح کیا۔ ان کی مشہور نظم “خودی کو کر بلند اتنا” خودی کی بلند پروازی کا درس دیتی ہے۔ ان کا یہ پیغام تھا کہ ایک مسلمان کو اپنی پہچان اور صلاحیتوں کا بھرپور احساس ہونا چاہیے۔
اقبال کی مشہور شاعری سے اقتباسات:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
یہ اشعار ہمیں خود اعتمادی اور بلند مقاصد کے حصول کی تحریک دیتے ہیں۔
شاعرِ مشرق
علامہ اقبال کو شاعرِ مشرق کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے مشرقی روایات اور اسلامی فلسفے کو اپنی شاعری میں نکھارا۔ اقبال کی شاعری میں مشرق کی گہرائی اور وسعت جھلکتی ہے، جس کی وجہ سے وہ مشرق میں عظیم شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ اقبال نے اسلامی دنیا میں بیداری پیدا کرنے کے لیے اپنی شاعری کو بطور ذریعہ استعمال کیا۔
اقبال کی شاعری میں عشقِ رسول ﷺ اور اسلامی تعلیمات کا رنگ نمایاں ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کی ترقی کے لیے اتحاد اور یکجہتی ناگزیر ہے۔ ان کا پیغام مسلمانوں کے لیے ایک نئی صبح کی نوید ہے جو انہیں غلامی سے آزادی کی طرف لے جاتا ہے۔
پاکستان کے خواب کا تصور
علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا خواب دیکھا۔ 1930 میں الہٰ آباد میں اپنے خطبے میں انہوں نے ایک خودمختار اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا۔ ان کا یہ خیال تھا کہ مسلمانوں کو اپنے دینی اور معاشرتی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے ایک جداگانہ ریاست کی ضرورت ہے۔ اقبال کا یہ خواب ہی بعد میں قیام پاکستان کی بنیاد بنا۔ ان کی یہ دوراندیشی اور عزم پاکستان کی تخلیق کا ایک اہم ستون ہے۔
اقبال کی ازدواجی زندگی
اقبال کی زندگی میں تین شادیاں ہوئیں۔ ان کی پہلی شادی امام بی بی سے ہوئی، جن سے دو بچے عطا محمد اقبال اور معراج بیگم پیدا ہوئے۔ دوسری شادی سردار بیگم سے ہوئی، جن سے ان کے تین بچے جاوید اقبال، منیرہ بانو اور افضل اقبال پیدا ہوئے۔ جاوید اقبال کے ساتھ علامہ کا خصوصی تعلق تھا، اور انہوں نے اپنی کئی نظموں میں جاوید کے لیے اپنی امیدوں اور خوابوں کا اظہار کیا۔ تیسری شادی مختار بیگم سے مختصر مدت کے لیے ہوئی، لیکن ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
وفات اور میراث
21 اپریل 1938 کو علامہ اقبال اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی آخری آرام گاہ لاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب واقع ہے۔ اقبال کی وفات کے بعد بھی ان کی شاعری، فکر اور فلسفہ مسلمانوں کے لیے ایک مشعل راہ ہے۔ ان کا پیغام خود اعتمادی، ترقی اور اعلیٰ مقاصد کے حصول کی تعلیم دیتا ہے۔ اقبال کی فکری خدمات اور تعلیمات آج بھی وقت کے تقاضوں کے مطابق مسلمانوں کو زندگی میں آگے بڑھنے کا عزم فراہم کرتی ہیں۔
اقبال کی شخصیت میں ایک عظیم شاعر، مفکر اور دانشور کی خوبیاں جمع تھیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو خودی کا پیغام دیا اور انہیں خواب دکھایا جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی کا عزم دیا۔ ان کا پیغام ہمیشہ زندہ رہے گا اور مسلمانوں کو ترقی کی راہ دکھاتا رہے گا۔