فیض احمد فیض (13 فروری 1911ء – 20 نومبر 1984ء) اردو ادب کی تاریخ میں ایک روشن ستارہ ہیں۔ وہ اردو کے عظیم شاعروں میں مزا غالب اور علامہ اقبال کے بعد نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ فیض احمد فیض سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، جو تاریخی اعتبار سے ادبی اور تعلیمی مرکز رہا ہے۔
نام اور خاندان
فیض احمد فیض کا پیدائشی نام چوہدری فیض احمد تھا، اور وہ ایک زمیندار جٹ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا گوت “تتلہ” تھا، جو سرکاری کاغذات میں بھی درج تھا۔ شاعری میں انہوں نے اپنا تخلص “فیضؔ” اپنایا، جس کے ساتھ وہ عالمی شہرت یافتہ ہوئے۔
ابتدائی تعلیم
فیض کی ابتدائی تعلیم کا آغاز مذہبی بنیادوں پر ہوا۔ انہوں نے قرآن پاک کے کچھ پارے حفظ کیے اور عربی و فارسی زبانوں کی تعلیم حاصل کی۔ یہ تعلیم مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی کے مدرسے سے حاصل کی، جہاں بچوں کو قرآنی علوم کے ساتھ فارسی اور عربی زبان سکھائی جاتی تھی۔ ان زبانوں میں مہارت ان کی بعد کی ادبی زندگی میں بہت کارآمد ثابت ہوئی۔
بچپن کی خصوصیات
فیض بچپن سے ہی شرمیلے اور نرم مزاج تھے۔ ان کے مزاج کی سب سے نمایاں خوبی جھگڑوں سے بچنے اور ہر مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی خواہش تھی۔ انہوں نے خود اپنے بچپن کے بارے میں ذکر کیا کہ ان کی پرورش خواتین کے زیر سایہ ہوئی، جس کی وجہ سے ان کی شخصیت میں شائستگی اور ادب پیدا ہوا، لیکن کھیل کود جیسی شرارتوں میں شمولیت کا موقع کم ملا۔
تھیٹر سے دلچسپی
فیض احمد فیض کی تھیٹر سے دلچسپی نوعمری میں ہی پیدا ہوئی، جب وہ صرف 14 سال کے تھے۔ اسکول کے دنوں میں، وہ آغا حشر کاشمیری جیسے مشہور ڈرامہ نگاروں کے ڈرامے دیکھنے کے لیے دوستوں کے ساتھ جایا کرتے تھے۔ ان ڈراموں نے فیض کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالا، اور وہ خود کو ان ڈراموں کے کرداروں میں تصور کرتے تھے۔ بعد میں، انہوں نے خود بھی کئی ڈرامے لکھے، جو ریڈیو سے نشر کیے گئے۔
فیض احمد فیض کی تعلیمی زندگی ان کی شخصیت اور مستقبل کی کامیابیوں کی بنیاد تھی۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک، فیض نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اپنے ادبی سفر کا آغاز بھی اسی دور سے کیا۔
اسکول اور ابتدائی تعلیم
فیض احمد فیض نے اسکاچ مشن ہائی اسکول، سیالکوٹ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ وہ 1921ء میں چوتھی جماعت میں داخل ہوئے اور 1927ء میں میٹرک امتیاز کے ساتھ مکمل کیا۔ یہ وہی اسکول تھا جہاں علامہ اقبال نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ یہاں پر فیض نے سید میر حسن جیسے مشہور استاد سے عربی اور فارسی زبان کی تعلیم حاصل کی، جو ان کی ادبی دلچسپیوں کے لیے اہم تھی۔
ثانوی تعلیم
میٹرک کے بعد فیض نے مرے کالج، سیالکوٹ میں داخلہ لیا، جو اس وقت ثانوی تعلیم کا بہترین ادارہ تھا۔ یہاں سے 1929ء میں انہوں نے انٹرمیڈیٹ کی سند حاصل کی۔ اس دوران ان کی دلچسپی ادب اور شاعری میں بڑھنے لگی۔
اعلیٰ تعلیم
1929ء میں فیض نے گورنمنٹ کالج، لاہور میں داخلہ لیا۔ اس تعلیمی ادارے میں ان کے اساتذہ میں پطرس بخاری اور صوفی تبسم جیسے مشہور شخصیات شامل تھیں، جنہوں نے ان کی ادبی صلاحیتوں کو نکھارا۔ فیض نے یہاں سے 1931ء میں بی اے اور عربی میں بی اے آنرز مکمل کیا۔ بعد ازاں، 1933ء میں انگریزی ادب میں ایم اے اور 1934ء میں عربی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
شاعری سے شغف
فیض کی طالب علمی کے دور میں شاعری کا آغاز ہو چکا تھا۔ وہ مشاعروں میں شرکت کرتے اور رومانی شاعری تخلیق کرتے تھے۔ 1928ء میں مرے کالج کے ایک مشاعرے میں پہلی بار انہیں اپنی شاعری پر داد ملی، اور 1931ء میں گورنمنٹ کالج لاہور کے مجلے “راوی” میں ان کی نظم شائع ہوئی، جس سے ان کی سخن گوئی کو مزید پذیرائی ملی۔
بیرون ملک تعلیم کا خواب
1939ء میں فیض نے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ جانے کی تیاری کی۔ تاہم، دوسری جنگِ عظیم کے آغاز کی وجہ سے یہ منصوبہ منسوخ ہوگیا، اور فیض ولایت جاکر تعلیم حاصل نہ کر سکے۔
خاندانی مشکلات
فیض کے والد کی وفات کے بعد ان کا خاندان شدید مالی مشکلات کا شکار ہوا۔ قرضداروں نے جو کچھ باقی بچا تھا، وہ بھی لے لیا۔ ان مشکلات کے باوجود فیض نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور کسی بھی طرح ان حالات کو اپنی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔
ملازمت کا آغاز
تعلیم مکمل کرنے کے بعد فیض نے ایم اے او کالج، امرتسر میں بطور لیکچرار اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ یہاں انہوں نے 1935ء سے 1940ء تک خدمات انجام دیں۔ امرتسر میں قیام کے دوران وہ ترقی پسند تحریک کے بانیوں، خاص طور پر سید سجاد ظہیر اور محمود الظفر، کے قریب آئے، جنہوں نے ان کے نظریات کو مارکسزم کی جانب مائل کیا۔
ترقی پسند تحریک اور “ادبِ لطیف”
فیض احمد فیض نے امرتسر میں ترقی پسند تحریک کے مقاصد کو آگے بڑھایا اور لاہور میں اس کی شاخ قائم کی۔ اس دوران انہوں نے ادبی پرچے “ادبِ لطیف” کی ادارت بھی سنبھالی، جو جدید اور ترقی پسند ادب کے فروغ میں مددگار ثابت ہوا۔
ایلس جارج سے شادی
فیض کی ملاقات ایلس جارج سے امرتسر میں ہوئی، جو ایک روشن خیال خاتون تھیں۔ 1941ء میں دونوں نے شادی کی، اور ایلس نے اسلام قبول کرکے اپنا نام کلثوم رکھا۔ یہ شادی فیض کے خاندان کے لیے حیرت انگیز تھی لیکن ان کی بہن نے خاندان کو راضی کر لیا۔ ایلس اور فیض کے دو بچے، سلیمہ ہاشمی اور منیزہ ہاشمی، پیدا ہوئے۔
فوج میں خدمات
1942ء میں فیض نے فوج میں بطور کیپٹن شمولیت اختیار کی اور 1947ء تک مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ اس دوران وہ جنرل اکبر خان کے ماتحت رہے، جو بائیں بازو کے خیالات رکھتے تھے اور فیض کو بہت پسند تھے۔
تقسیمِ ہند کے بعد
قیام پاکستان کے بعد فیض نے پاکستان ٹائمز کے مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے بانیوں میں شامل تھے اور ٹریڈ یونینز کی سرگرمیوں میں بھی نمایاں رہے۔ 1948ء میں انہوں نے جنیوا میں پاکستان کی نمائندگی کی اور ورلڈ پیس کونسل کے رکن بنے۔
راولپنڈی سازش کیس
راولپنڈی سازش کیس 1951ء میں پاکستان کے سیاسی اور عسکری حلقوں میں ہلچل کا سبب بنا۔ یہ سازش میجر جنرل اکبر خان کی قیادت میں لیاقت علی خان کی حکومت کے خلاف ترتیب دی گئی تھی۔ ان کا مقصد حکومت کو گرانا اور کمیونسٹ نظریات پر مبنی حکومت قائم کرنا تھا۔ اس سازش میں فیض احمد فیض سمیت متعدد عسکری اور سیاسی شخصیات شامل تھیں۔
گرفتاری اور قید
فیض احمد فیض کو 9 مارچ 1951ء کو راولپنڈی سازش کیس میں معاونت کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ انہیں سرگودھا، ساہیوال، حیدرآباد، اور کراچی کی جیلوں میں رکھا گیا، جہاں انہوں نے تقریباً چار سال گزارے۔ اسی دوران انہوں نے اپنی مشہور تصنیف “زندان نامہ” کے کئی حصے تحریر کیے، جو قید کے دوران ان کی اندرونی کیفیات اور سیاسی نظریات کی عکاسی کرتے ہیں۔
جلاوطنی کا دور
رہائی کے بعد فیض نے کچھ وقت جلاوطنی میں گزارا اور لندن منتقل ہو گئے، جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ مقیم رہے۔ یہ دور ان کے لیے مشکل تھا، لیکن انہوں نے اپنی شاعری اور ادبی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ ان کے اشعار میں وطن سے دوری کا درد اور سیاسی جدوجہد کا عزم نمایاں رہا۔
وطن واپسی اور خدمات
1959ء میں فیض پاکستان آرٹس کونسل کے سیکرٹری کے طور پر مقرر ہوئے اور 1962ء تک خدمات انجام دیں۔ 1964ء میں لندن سے واپسی کے بعد وہ کراچی کے عبد اللہ ہارون کالج کے پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کے ادبی اور تعلیمی کردار نے معاشرے میں ان کی اہمیت کو مزید مستحکم کیا۔
وفات
فیض احمد فیض کو آخری عمر میں دمے کا عارضہ لاحق تھا، جو بتدریج شدت اختیار کر گیا۔ 20 نومبر 1984ء کو وہ لاہور کے میو ہسپتال میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی موت نے ادبی اور سیاسی حلقوں میں ایک خلا چھوڑ دیا، جسے پر کرنا ناممکن ہے۔
شاعری کے موضوعات
رومانیت کا آغاز: فیض کی ابتدائی شاعری میں رومانوی موضوعات غالب تھے، جو ان کے ذاتی تجربات اور جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ انداز ان کے پہلے مجموعے نقش فریادی میں نمایاں ہے۔
ترقی پسند موضوعات: وقت کے ساتھ ان کی شاعری میں سماجی انصاف، آزادی، اور انقلاب کے موضوعات شامل ہوئے۔ انہوں نے ترقی پسند نظریات کو شاعری کے جمالیاتی اسلوب کے ساتھ پیش کیا، جو انہیں دوسرے ترقی پسند شعرا سے منفرد بناتا ہے۔
انقلابی پیغام: فیض کی شاعری میں ظلم و جبر کے خلاف آواز، امن کی جستجو، اور اجتماعی جدوجہد کی جھلکیاں واضح ہیں۔ ان کے کئی اشعار بین الاقوامی تحریکوں کا حصہ بنے، جیسے “ہم دیکھیں گے”۔
فیض احمد فیض کے اہم شاعری کے مجموعے
- نقش فریادی – یہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے، جس میں رومانی شاعری اور انگریزی شاعری کے اثرات شامل ہیں۔
- دست صبا – اس مجموعے میں اسیری کے دوران لکھے گئے اشعار شامل ہیں، جو سیاسی اور سماجی مسائل کو اجاگر کرتے ہیں۔
- زنداں نامہ – یہ مجموعہ بھی فیض کی جیل کی زندگی سے متعلق ہے اور اس میں ان کی نظر میں دنیا بھر کے محنت کشوں کی حالت زار کی تصویر کشی کی گئی ہے۔
- دست تہ سنگ – یہ مجموعہ اس وقت کا ہے جب فیض کی اسیری کا دور ختم ہو چکا تھا، اور اس میں عوامی جدوجہد اور امید کی جھلکیاں ہیں۔
- سر وادی سینا – اس مجموعے میں عالمی سیاسی حالات اور عرب اسرائیل جنگ کے اثرات پر نظمیں شامل ہیں۔
- شام شہر یاراں – ایک چھوٹا مجموعہ ہے جس میں فنی انحطاط کے آثار نظر آتے ہیں۔
- مرے دل مرے مسافر – اس مجموعے میں فیض کی غمگین لیکن امید سے بھرپور شاعری شامل ہے۔
- نسخہ ہائے وفا (کلیات) – فیض کا کلیات جو ان کے تمام اہم کاموں کو یکجا کرتا ہے۔
فیض کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ وہ ہر موضوع کو نہ صرف تکنیکی مہارت سے پیش کرتے ہیں، بلکہ ان کی نظمیں سماجی اور سیاسی سطح پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ان کے کام میں محبت، انقلاب، اور انسانی حقوق کے موضوعات اہمیت رکھتے ہیں، اور وہ انہیں نہایت خوبصورتی سے شاعری میں ڈھالتے ہیں۔
یہ اشعار فیض احمد فیض کی غزل کا حصہ ہیں، جو ان کے مشہور کلام میں شامل ہے۔ پوری غزل درج ذیل ہے
یاد کا پھر کوئی دروازہ کھلا آخر شب
دل میں بکھری کوئی خوشبوئے قبا آخر شب
صبح پھوٹی تو وہ پہلو سے اٹھا آخر شب
وہ جو اک عمر سے آیا نہ گیا، آخر شب
چاند سے ماند ستاروں نے کہا آخر شب
کون کرتا ہے وفا، عہد وفا آخر شب
لمس جانانہ لئے، مست گماں خواب نژاد
موجۂ رنگ چراغاں سے ہوا آخر شب
ہو گئی رہگزر دوست دراز آخر شب
ہم بھی کمزور پڑے، ترک وفا آخر شب
جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی
ہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا