افغان حکومت کا ٹی ٹی پی کی منتقلی کے لیے 10 ارب روپے کا مطالبہ
افغان حکومت کا مطالبہ: ٹی ٹی پی کی منتقلی کے لیے 10 ارب روپے
وزیر دفاع خواجہ آصف نے انکشاف کیا ہے کہ افغان حکومت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغانستان میں بسانے کے لیے 10 ارب روپے مانگے تھے۔ انہوں نے افغان قیادت سے سوال کیا کہ کیا وہ گارنٹی دے سکتے ہیں کہ ٹی ٹی پی پاکستان واپس نہیں آئے گی، جس پر وہ خاموش ہوگئے۔ خواجہ آصف نے مزید کہا کہ یہ مطالبہ اس وقت کیا گیا جب کالعدم تنظیم کے ساتھ کوئی جنگ بندی معاہدہ موجود نہیں تھا۔
پاکستان کو اندرونی خطرات کا سامنا
جیو نیوز کے پروگرام “کیپٹل ٹاک” میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کے دفاع کو بیرونی خطرات کے مقابلے میں اندرونی خطرات زیادہ درپیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی دشمنوں کا سامنا کرنے کے لیے ہم تیار ہیں، مگر اندرونی چیلنجز کو حل کرنا زیادہ ضروری ہے۔
اسمبلی میں کیے گئے فیصلے اور ان کے نتائج
وزیر دفاع نے کہا کہ ماضی میں اسمبلی کے اندر بریفنگ دی گئی تھی کہ ٹی ٹی پی کے افراد کو پاکستان میں بسانا ایک مثبت قدم ہوگا۔ اُس وقت کی قیادت نے دعویٰ کیا تھا کہ تقریباً 40 سے 45 ہزار افراد آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج یہی لوگ خیبرپختونخوا میں موجود ہیں اور ان کی وجہ سے وہاں کے عوام مشکلات کا شکار ہیں۔
افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی تفصیلات
خواجہ آصف نے بتایا کہ جب پی ڈی ایم حکومت بنی تو وہ افغانستان کے دورے پر گئے تھے، جہاں افغان طالبان کے وزیر دفاع اور دیگر قیادت سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ اگر دہشت گردی کو کنٹرول نہ کیا گیا تو پاکستان کو سخت اقدام اٹھانے پڑیں گے۔ افغان قیادت نے اس دوران 10 ارب روپے کا مطالبہ کیا تاکہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو افغانستان میں کہیں اور منتقل کیا جا سکے۔
فلسطین اور پاکستان پر تنقید کا جواب
خواجہ آصف نے فلسطینی عوام پر مظالم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جو ممالک ان مظالم میں ملوث ہیں، انہیں پاکستان پر تنقید کرنے کا کوئی حق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام تر دباؤ کے باوجود پاکستان ایٹمی طاقت بھی بنا اور دفاعی لحاظ سے مضبوط بھی ہوا۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
دفاعی تنصیبات پر حملے ناقابل قبول
وزیر دفاع نے کہا کہ مذاکرات کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن دفاعی تنصیبات پر حملوں کو کسی صورت بھی جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ، لیکن ملک اور ریاست کے خلاف اقدامات ناقابل برداشت ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 9 مئی اور 26 نومبر جیسے واقعات نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔