سپریم کورٹ نے کچی آبادی کیس میں وفاق سے رپورٹ طلب کر لی
سپریم کورٹ کی آئینی بینچ کا فیصلہ
سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے کچی آبادی کیس کی سماعت کے دوران وفاق سے کچی آبادیوں سے متعلق پالیسی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ عدالت نے وفاقی حکومت کو یہ رپورٹ دو ہفتوں میں فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس امین الدین کا موقف
آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین نے واضح کیا کہ کچی آبادیوں کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار صوبوں اور مقامی حکومتوں کا ہے۔ انہوں نے اس معاملے میں صوبوں کی اہمیت پر زور دیا۔
جسٹس مندوخیل کی سوالات
جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت صوبائی اختیار پر کیا قانون سازی کر سکتی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ پہلے یہ بتایا جائے کہ کچی آبادی کی تعریف کیا ہے۔ انہوں نے بلوچستان میں موجود کچی آبادیوں کی مثال بھی دی۔
جسٹس رضوی کی تشویش
جسٹس رضوی نے کہا کہ قبضہ گروپ ندی نالوں کے کنارے کچی آبادی بنا لیتے ہیں اور عوامی سہولتوں کے پلاٹوں پر بھی کچی آبادی قائم ہو جاتی ہے۔ انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ اس نے کچی آبادی کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟
سی ڈی اے کے وکیل کا موقف
وکیل سی ڈی اے نے عدالت کو بتایا کہ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 10 کچی آبادیوں کو نوٹیفائی کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے کچی آبادی کی تعریف طے کی جائے۔
جسٹس مندوخیل کا حکم
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگر ان کچی آبادیوں کے علاوہ کوئی قبضہ ہے تو اس پر کارروائی کی جائے۔ غیر قانونی قبضہ چھڑانے کے قوانین موجود ہیں۔
سی ڈی اے کے وکیل کا جواب
وکیل سی ڈی اے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عدالت نے قبضہ چھڑانے کے خلاف حکم امتناع دے رکھا ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر حکم امتناع ہے تو اس کو ختم کرایا جائے۔
تجاوزات کی تعمیر
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ تجاوزات کی تعمیر میں اداروں کے لوگ بھی ملوث ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے چھپرا ہوٹل بنتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ وہاں آبادی بن جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ کا فیصلہ: فوجی عدالتوں کی فعالیت اور قانونی اثرات