چین کی مصنوعی ذہانت (AI) ایپ “ڈیپ سیک” (DeepSeek) نے حالیہ ہفتوں میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ اس ایپ کی تیزی سے بڑھتی مقبولیت نے نہ صرف عالمی سرمایہ کاروں کو چونکا دیا ہے بلکہ یہ چین کی ٹیکنالوجی کے میدان میں بڑھتی ہوئی خودمختاری کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ خاص طور پر امریکہ اور یورپ میں، جہاں ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں جیسے اینویڈیا (NVIDIA)، مائیکروسافٹ، اور گوگل کے اسٹاک کی مالیت میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ صرف اینویڈیا کی مارکیٹ ویلیو میں 500 ارب ڈالر تک کا نقصان ریکارڈ کیا گیا، جو چینی AI کی اس کامیابی کے اثرات کی واضح علامت ہے۔
ڈیپ سیک کیا ہے؟
ڈیپ سیک ایک جنریٹو AI چیٹ بوٹ ہے جو متن، کوڈنگ، ریاضیاتی مسائل حل کرنے، اور معلومات کے تجزیے میں انسانی صلاحیتوں کے قریب کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ ٹول اوپن سورس AI ماڈلز پر مبنی ہے، جسے چینی ریسرچرز نے انتہائی کم لاگت (محض 6 ملین ڈالر) میں تیار کیا ہے۔ اس کی کارکردگی اور معیار نے اسے OpenAI کے GPT-4 جیسے جدید ماڈلز کا حقیقی مقابل بنا دیا ہے۔
امریکی ردعمل اور سیاسی تناظر
ڈیپ سیک کی کامیابی نے امریکہ کی ٹیکنالوجی بالادستی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے “مثبت پیش رفت” قرار دیتے ہوئے امریکی ٹیکنالوجی سیکٹر کو چوکنا رہنے کی ہدایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ “چین کی یہ کامیابی ہمارے لیے ایک ویک اپ کال ہے۔ ہمیں اپنی تحقیق اور جدت میں تیزی لانی ہوگی۔”
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیپ سیک کی لانچنگ سے صرف ایک ہفتہ قبل، اوپن اے آئی (OpenAI) اور دیگر امریکی کمپنیوں کے اتحاد نے 500 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا، جسے ٹرمپ نے “تاریخی موقع” قرار دیا تھا۔ لیکن ڈیپ سیک کی اچانک کامیابی نے اس منصوبے پر بھی سایہ ڈال دیا۔
ٹیکنالوجی کی دوڑ میں چین کا طریقہ کار
چین کی یہ کامیابی محض ایک ایپ تک محدود نہیں۔ یہ ملک AI ٹیکنالوجی میں خودکفالت کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے، خاص طور پر جب امریکہ جدید چپس اور کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی کی چین کو فراہمی پر پابندیاں عائد کر رہا ہے۔ چینی محققین نے کمپیوٹنگ پاور کے موثر استعمال پر توجہ مرکوز کی ہے، جس کی وجہ سے AI ماڈلز کی تیاری لاگت میں نمایاں کمی آئی ہے۔ مثال کے طور پر، ڈیپ سیک کے ماڈلز میں استعمال ہونے والی توانائی اور ڈیٹا پروسیسنگ کا خرچہ حریف کمپنیوں کے مقابلے میں 90% تک کم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چینی مصنوعی ذہانت ڈیپ سیک کے بانی لیانگ وینفینگ کون ہیں؟
سیلیکون ویلی پر اثرات اور ’سپوٹنک لمحہ‘
ٹیکنالوجی کے شعبے میں ڈیپ سیک کی کامیابی کو “سپوٹنک لمحہ” سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ یہ اصطلاح 1957 میں سوویت یونین کے پہلے مصنوعی سیارے کے خلاء میں بھیجے جانے کے واقعے سے لی گئی ہے، جس نے امریکہ کو ٹیکنالوجی کی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ اسی طرح، ڈیپ سیک کی ایجاد نے ثابت کیا ہے کہ چین AI کی عالمی دوڑ میں ایک اہم کھلاڑی بن چکا ہے۔ سیلیکون ویلی کے نامور سرمایہ کار مارک اینڈرسن نے اسے “جدید دور کا سب سے بڑا ٹیکنالوجی شاک” قرار دیا ہے۔
ڈیپ سیک کی خصوصیات اور چیلنجز
لاگت میں کمی: ڈیپ سیک کی تیاری پر صرف 6 ملین ڈالر خرچ ہوئے، جو اوپن اے آئی کے اربوں ڈالر کے اخراجات کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔
اوپن سورس ماڈلز: یہ ایپ ڈیپ سیک V3 جیسے اوپن سورس ماڈلز پر مبنی ہے، جسے کوئی بھی ڈویلپر مفت میں استعمال یا ترمیم کر سکتا ہے۔
سیکیورٹی مسائل: ایپ کی مقبولیت کے بعد ہیکرز کے حملوں میں اضافہ ہوا، جس کے باعث اسے عارضی طور پر نئے صارفین کے لیے بند کر دیا گیا۔
آئندہ کے لیے اشارے
ڈیپ سیک کی کامیابی صرف ایک ایپ تک محدود نہیں، بلکہ یہ چین کی AI اسٹریٹیجی کا ایک حصہ ہے۔ چین کی قومی پالیسیوں کے تحت، AI ریسرچ کو تعلیمی اداروں، سرکاری لیبارٹریز، اور پرائیویٹ سیکٹر کے درمیان اشتراک سے فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، چین چپ ڈیزائن اور کوانٹم کمپیوٹنگ جیسے شعبوں میں بھی تیزی سے سرمایہ کاری کر رہا ہے، جس کا مقصد ٹیکنالوجی کے میدان میں مکمل خودانحصاری حاصل کرنا ہے۔
نتیجہ
ڈیپ سیک کی کہانی صرف ایک ایپ کی کامیابی نہیں، بلکہ یہ عالمی ٹیکنالوجی لینڈ اسکیپ میں تبدیلی کی علامت ہے۔ چین کی یہ پیش رفت نہ صرف امریکہ اور یورپ کے لیے چیلنج ہے، بلکہ یہ دنیا کو یہ بھی باور کراتی ہے کہ AI کی دوڑ اب صرف ایک ملک کی اجارہ داری نہیں رہی۔ آنے والے برسوں میں، مصنوعی ذہانت کی یہ مقابلہ بازی عالمی معیشت، سلامتی، اور اختراعات کے نئے دور کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈیپ سیک: چین کی مصنوعی ذہانت ایپ جس نے امریکہ میں ہلچل مچا دی