یہ بات واضح ہے کہ رمضان المبارک میں بلا عذر روزہ چھوڑ کر سرعام کھانے پینے والا شخص اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اس کا یہ عمل فسق کے زمرے میں آتا ہے۔ ایسے افراد کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر یہ ہے کہ انہیں پہلے دین کی اہمیت، روزے کی فضیلت اور اس کے ترک کرنے پر وعیدوں سے آگاہ کیا جائے۔ حکمت اور نرمی کے ساتھ ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے تاکہ وہ اپنے رویے پر نظر ثانی کریں اور توبہ کرلیں۔
اگر اس کے باوجود بھی وہ باز نہ آئیں اور دیدہ دلیری کے ساتھ رمضان کے تقدس کو پامال کرتے رہیں تو مسلمان حکمران ان کے جرم کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے سخت سے سخت سزا دے سکتا ہے، جو عبرت کے لیے ضروری ہو سکتی ہے۔ بعض فقہا کے مطابق، اگر ان کا عمل اسلامی معاشرے کے شعائر کی کھلم کھلا بے حرمتی کے مترادف ہو تو سخت ترین سزا بھی دی جا سکتی ہے تاکہ دوسروں کو نصیحت ہو۔
البتہ، اگر کوئی شخص اپنے عمل کو غلط سمجھتے ہوئے محض سستی یا دیگر وجوہات کی بنا پر روزہ نہیں رکھتا لیکن اس کا اظہار سرعام نہیں کرتا، تو وہ فاسق و فاجر شمار ہوگا اور اسے اللہ تعالیٰ کے حضور سچی توبہ کرنی چاہیے۔ دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
یہ بھی پڑھیں: فرض غسل کے بعد وضو کی ضرورت اور اس کے شرعی احکام