Monday, June 16, 2025
ہومArticlesعامر لیاقت حسین کی زندگی اور تنازعات – سیاست اور میڈیا

عامر لیاقت حسین کی زندگی اور تنازعات – سیاست اور میڈیا

عامر لیاقت حسین کی زندگی

عامر لیاقت حسین (5 جولائی 1971 – 9 جون 2022) پاکستانی سیاستدان، کالم نگار اور ٹیلی ویژن میزبان تھے۔ وہ ایک نمایاں ٹی وی اینکر تھے اور تین مرتبہ دنیا کے 500 بااثر مسلمانوں کی فہرست میں شامل رہے، جبکہ پاکستان کی 100 مشہور شخصیات میں بھی شمار کیے جاتے تھے۔ انہیں کئی مواقع پر اپنے متنازعہ بیانات کے باعث میڈیا میں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اگست 2018 سے جون 2022 تک قومی اسمبلی کے رکن رہے۔

اس سے قبل، 2002 سے 2007 تک قومی اسمبلی کے رکن رہے اور 2004 سے 2007 تک وزیرِ مملکت برائے مذہبی امور کے طور پر وزیرِاعظم شوکت عزیز کی کابینہ میں خدمات انجام دیں۔ 9 جون 2022 کو وہ اپنے گھر کے کمرے میں مردہ پائے گئے۔ پولیس کے مطابق، ان کے گھر میں ایک جنریٹر سے دھواں بھر جانے کے باعث دم گھٹنے سے ان کی موت واقع ہوئی۔

تعلیمی قابلیت اور جعلی ڈگریاں

عامر لیاقت حسین کی زندگی تنازعات کے ساتھ ساتھ کئی تعلیمی دعووں پر بھی مشتمل رہی۔ حسین نے 2002 میں ٹرینٹی کالج اینڈ یونیورسٹی سے اسلامک اسٹڈیز میں بیچلر آف آرٹس حاصل کیا۔

2006 میں، ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے اعلان کیا کہ حسین کی اسلامک اسٹڈیز میں بی اے ڈگری ٹرینٹی کالج اینڈ یونیورسٹی سے غیر تسلیم شدہ ہے کیونکہ یہ ادارہ غیر منظور شدہ تھا۔ 2003 میں، دی گارڈین نے رپورٹ کیا کہ یہ یونیورسٹی ایک ڈگری مل کے طور پر کام کر رہی تھی، جو صرف 28 دن میں £150 کے عوض ڈگریاں فروخت کر رہی تھی۔ 2005 میں کراچی یونیورسٹی نے بھی ان کی بی اے ڈگری کو جعلی قرار دیا۔

2002 کے پاکستانی عام انتخابات کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت، حسین نے اپنی بی اے ڈگری ظاہر کی۔ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے ٹرینٹی کالج اینڈ یونیورسٹی سے ڈگریاں صرف اس لیے حاصل کیں تاکہ 2002 میں نافذ کیے گئے نئے قانون کے تحت الیکشن میں حصہ لینے کے قابل ہو سکیں، جس کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے لیے کم از کم بیچلر ڈگری کا حامل ہونا لازمی قرار دیا گیا تھا۔

حسین نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے 1995 میں لیاقت میڈیکل کالج جامشورو سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ تاہم، اس دعوے پر سوالات اٹھائے گئے، کیونکہ اگر ان کے پاس ایم بی بی ایس ہوتا تو انہیں 2002 کے انتخابات میں نامزدگی کے لیے جعلی بیچلر، ماسٹرز یا ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ مزید برآں، اس نکتے پر بھی اعتراض کیا گیا کہ ایک ہی وقت میں دو مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں، جبکہ حسین نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے 1995 میں ایم بی بی ایس اور اسی سال ٹرینٹی کالج سے بی اے بھی حاصل کیا۔

2012 میں، رپورٹس سامنے آئیں کہ حسین نے 2008 میں کراچی یونیورسٹی سے بی اے مکمل کیا۔ بعد ازاں، 2010 میں، وہ فیڈرل اردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کے لیے داخل ہوئے۔ تاہم، یونیورسٹی حکام نے بتایا کہ حسین نے کبھی کوئی کلاس اٹینڈ نہیں کی اور نہ ہی امتحانات دیے۔ مزید برآں، ان کے داخلہ فارم پر پہلے کسی اور شخص کی تصویر موجود تھی، جسے بعد میں حسین کی تصویر سے تبدیل کر دیا گیا۔ رپورٹس میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ انہوں نے خود سیمسٹر امتحانات نہیں دیے۔

2015 میں، مزید الزامات سامنے آئے کہ حسین نے ایش ووڈ یونیورسٹی سے جعلی ڈگری حاصل کی تھی۔ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی نے ان کے ریکارڈ کو ایکزیکٹ کے مرکزی ڈیٹا بیس سے منسلک کیا، جو جعلی ڈگریوں کی فروخت سے جڑا ہوا تھا۔ حسین نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ایش ووڈ یونیورسٹی سے $1,136 میں جعلی ڈگری خریدی۔

سیاسی کیریئر

ایم کیو ایم سے آغاز

عامر لیاقت حسین 2002 کے عام انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 2004 میں وزیر مملکت برائے مذہبی امور مقرر ہوئے۔ انہوں نے 2005 میں خودکش حملوں کے خلاف فتویٰ لینے کی کوشش کی۔ 2007 میں ایم کیو ایم سے اختلافات کے بعد انہوں نے وزارت اور اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا، اور 2008 میں انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔

2016 میں ایم کیو ایم پر پابندی کے بعد، انہیں بھی سندھ رینجرز نے حراست میں لیا۔ 2017 میں ایک مقدمے میں ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا گیا۔

تحریک انصاف میں شمولیت

حسین نے مارچ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں شمولیت اختیار کی۔ وہ عمران خان کی قیادت میں سیاسی میدان میں متحرک ہوئے اور 2018 کے عام انتخابات میں کراچی کی نشست این اے-245 سے پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر دوبارہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ تاہم، 4 اکتوبر 2021 کو، انہوں نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا اور پی ٹی آئی کو چھوڑ دیا۔

عامر لیاقت حسین کی تحریک انصاف میں شمولیت

ایم کیو ایم میں واپسی

عامر لیاقت حسین نے 6 اپریل 2022 کو ٹویٹ کیا کہ وہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے بے وفائی پر شدید شرمندہ ہیں اور ان کی آنکھوں میں دیکھنے کے قابل نہیں۔ اس بیان سے ان کی ایم کیو ایم میں واپسی کے امکانات ظاہر ہوئے۔ وہ متعدد مواقع پر الطاف حسین کو اپنا قائد قرار دیتے رہے اور حکومت سے ان کے خود ساختہ جلاوطنی ختم کرنے کے لیے مذاکرات کی بحالی کی حمایت بھی کی۔

ٹی وی کیریئر

عامر لیاقت حسین نے اپنے نشریاتی کیریئر کا آغاز ایف ایم 101 پر بطور ریڈیو براڈکاسٹر کیا۔ عامر لیاقت حسین کی زندگی کئی سالوں تک سحری اور افطار کی رمضان نشریات کی میزبانی کے لیے مشہور رہی۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن سے اپنی ٹی وی نشریات کا آغاز کیا لیکن جلد ہی انہیں برطرف کر دیا گیا۔

2001 میں، عامر لیاقت حسین جیو ٹی وی کے بانی اراکین میں شامل ہوئے اور مذہبی پروگرام “عالم آن لائن” کی میزبانی کی۔ 2010 میں، انہوں نے جیو ٹی وی چھوڑ کر اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک میں بطور مینجنگ ڈائریکٹر اے آر وائی کیو ٹی وی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر اے آر وائی ڈیجیٹل شمولیت اختیار کی۔ یہاں انہوں نے “عالم اور عالم” پروگرام کی میزبانی کی۔ بعد ازاں، 2012 میں جیو ٹی وی میں واپسی پر “پہچان رمضان” اور 2013 میں “امان رمضان” کی میزبانی کی۔ 2014 میں وہ جیو ٹی وی کے نائب صدر بنے اور مشہور گیم شو “انعام گھر” کی میزبانی کی۔

جون 2014 میں، عامر لیاقت حسین ایکسپریس میڈیا گروپ میں صدر اور ڈیلی ایکسپریس میں مذہبی مواد کے گروپ ایڈیٹر بنے۔ انہوں نے “پاکستان رمضان” کی میزبانی کی۔ بعد ازاں، نومبر 2014 میں جیو ٹی وی میں واپسی کے بعد “صبحِ پاکستان” کی میزبانی کی اور 2015 میں جیو انٹرٹینمنٹ کے صدر بن گئے۔ 2016 میں، انہوں نے بول میڈیا گروپ جوائن کیا اور موجودہ حالات پر مبنی ٹاک شو “ایسے نہیں چلے گا” کی میزبانی شروع کی۔ 2017 میں انہوں نے “رمضان میں بول” اور گیم شو “گیم شو ایسے چلے گا” کی میزبانی کی، لیکن نومبر 2017 میں بول چھوڑ دیا۔ 2019 میں، وہ پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن میں شامل ہو گئے۔

 پاکستانی میڈیا پرسنالٹی عامر لیاقت حسین کی زندگی، تنازعات اور شہرت کی کہانی

2016 میں، یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ عامر لیاقت حسین کی زندگی میں نیا موڑ آیا جب سید نور کی فلم میں سعیمہ نور کے ساتھ بطور مرکزی کردار پاکستانی فلمی دنیا میں قدم رکھنے کی خبر گردش کرنے لگی۔ 2019 میں، انہوں نے اعلان کیا کہ وہ ایوب کھوسہ کی کشمیر کے موضوع پر بننے والی فلم میں برہان وانی کا کردار نبھائیں گے۔ 2020 میں، انہوں نے ایکسپریس ٹی وی پر گیم شو “جیے پاکستان” کی میزبانی شروع کی۔

تنازعات

عامر لیاقت حسین کی زندگی مختلف تنازعات سے بھری رہی۔ 2008 میں ایک ٹی وی پروگرام میں انہوں نے احمدیہ کمیونٹی کے خلاف سخت زبان استعمال کی، جس کے بعد دو احمدی افراد کو قتل کر دیا گیا۔ 2010 میں انہوں نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی شکست کو کھلاڑیوں کے جوتوں کے سبز رنگ سے جوڑا اور اسے مذہبی مسئلہ قرار دیا، جس پر شدید تنقید کی گئی۔

2011 میں عامر لیاقت حسین کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ شو کے دوران نازیبا زبان استعمال کرتے نظر آئے۔ اس پر انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ویڈیو جعلی ہے اور ان کے خلاف سازش کی گئی ہے۔ 2013 میں، انہوں نے ایک رمضان نشریات میں یتیم بچوں کو لائیو شو میں گود دینے کا سلسلہ شروع کیا، جس پر بچوں کے تحفظ کی تنظیموں نے اعتراض کیا۔

2014 میں ان کے ایک ٹی وی شو میں ایک مذہبی عالم نے احمدیوں کو اسلام کا دشمن قرار دیا اور عامر لیاقت حسین نے اس پر سر ہلایا اور تائید کی، جس کے چند دن بعد ایک احمدی شخص کو قتل کر دیا گیا۔ 2016 میں پیمرا نے ان کے رمضان شو پر تین دن کی پابندی لگائی جب ایک شو میں خودکشی کے منظر کی عکس بندی کی گئی۔

2017 میں عامر لیاقت حسین کی زندگی ایک بار پھر تنازعے کا شکار ہوئی جب انہوں نے سماجی کارکن جبران ناصر کے خلاف مہم چلائی، جس پر پیمرا میں ان کے خلاف شکایت درج کرائی گئی۔ اسی سال انہوں نے دعویٰ کیا کہ بھارتی اداکار اوم پوری کا قتل کیا گیا تھا، جس پر پیمرا نے ان کے پروگرام پر پابندی عائد کر دی۔ بعد ازاں، سپریم کورٹ نے 2018 میں اس پابندی کو ختم کر دیا۔

2018 میں عامر لیاقت کو دوبارہ ایک مذہبی تنظیم کے خلاف بیان دینے پر پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ 2020 میں، انہوں نے بھارتی اداکارہ سری دیوی اور عرفان خان کی موت پر متنازعہ ریمارکس دیے، جس پر انہیں معذرت کرنا پڑی۔ 2021 میں وہ اس وقت پھر تنازعے میں آئے جب انہوں نے رمضان نشریات میں “ناگن ڈانس” کیا، جسے غیر سنجیدہ اور غیر مناسب قرار دیا گیا۔

ذاتی زندگی اور ازدواجی معاملات

عامر لیاقت حسین کی زندگی اور تنازعات میں ان کی شادیاں بھی ہمیشہ خبروں میں رہیں۔ عامر لیاقت کی پہلی شادی سیدہ بشریٰ اقبال سے ہوئی، جس سے ان کے دو بچے ہیں۔ 2018 میں عامر لیاقت نے سیدہ طوبیٰ عامر سے دوسری شادی کی، جو 2022 میں طلاق پر ختم ہوئی۔ اسی سال انہوں نے تیسری شادی سیدہ دانیہ شاہ سے کی، جو چند ماہ میں ہی طلاق پر منتج ہوئی۔

 عامر لیاقت حسین کے تینوں بیویوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات

انتقال اور وجوہات

9 جون 2022 کو عامر لیاقت حسین کراچی میں اپنے گھر میں بے ہوش پائے گئے۔ ان کے ملازم کے مطابق، انہوں نے عامر لیاقت حسین کو بند کمرے میں تکلیف سے چیختے ہوئے سنا۔ جب کئی بار دروازہ کھٹکھٹانے پر کوئی جواب نہ ملا تو ملازم نے دروازہ توڑ کر دیکھا کہ وہ فرش پر بے ہوش پڑے ہیں۔ انہیں فوری طور پر آغا خان اسپتال منتقل کیا گیا، مگر وہاں پہنچنے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہو چکا تھا۔ ڈاکٹروں نے تصدیق کی کہ وہ اسپتال پہنچنے سے قبل ہی دم توڑ چکے تھے۔ پولیس نے ابتدائی طور پر شبہ ظاہر کیا کہ ان کی موت گھر میں موجود جنریٹر کے دھوئیں سے دم گھٹنے کے باعث ہوئی، تاہم ان کی موت کی حتمی وجوہات کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ اس کے علاوہ، کسی مجرمانہ کارروائی کے امکانات کو بھی مسترد نہیں کیا گیا۔

ان کی نماز جنازہ 10 جون 2022 کو ادا کی گئی، جس کی امامت ان کے بیٹے احمد عامر نے کی۔ انہیں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ پولیس کی درخواست کے باوجود اہل خانہ نے ان کا پوسٹ مارٹم کروانے سے انکار کر دیا، جس کے باعث موت کی حتمی وجوہات معلوم نہ ہو سکیں۔

18 جون 2022 کو ایک مقامی عدالت نے ایک شہری کی درخواست پر عامر لیاقت حسین کی قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کا حکم جاری کیا۔ تاہم، 16 اگست 2022 کو اسی عدالت نے اپنا سابقہ فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، اور یوں ان کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا۔

بعد ازاں، دسمبر 2022 میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ان کی تیسری اہلیہ دانیہ شاہ کو ان کے ذاتی ویڈیوز اور معلومات سوشل میڈیا پر لیک کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔

نتیجہ

عامر لیاقت حسین کی زندگی اور تنازعات ہمیشہ میڈیا، سیاست اور عوامی حلقوں میں زیرِ بحث رہے۔ ان کی شخصیت جتنی مقبول تھی، اتنی ہی متنازعہ بھی تھی۔ وہ ایک طرف شعلہ بیان مقرر، اینکر اور سیاستدان تھے، تو دوسری طرف ان پر کئی الزامات اور تنازعات بھی رہے۔ ان کی زندگی ایک سبق ہے کہ شہرت کے ساتھ ذمہ داری بھی آتی ہے، اور اگر اس کا صحیح استعمال نہ کیا جائے تو یہ نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے۔

  یہ بھی پڑھیں: جنید جمشید کا پاپ گلوکار سے عالم دین تک کا روحانی سفر

Most Popular