والد کی جگہ شادی شدہ بیٹی بھی سرکاری نوکری کی حقدار، سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ
تعارف
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد بیٹی کو نوکری سے محروم کرنے کے کیس میں بڑا فیصلہ سناتے ہوئے شادی شدہ بیٹی کو بھی والد کی جگہ نوکری کے لیے اہل قرار دے دیا۔
عدالتی کارروائی اور فیصلہ
سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ، نے درخواست گزار زاہدہ پروین کی درخواست منظور کر لی اور کیس نمٹا دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ شادی کا کسی عورت کی معاشی خودمختاری سے کوئی تعلق نہیں، اور اگر بیٹا شادی کے بعد بھی والد کا جانشین ہو سکتا ہے تو بیٹی کیوں نہیں؟
قانونی نکات اور حکومتی مؤقف
کیس کے دوران ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے مؤقف اختیار کیا کہ سابق چیف جسٹس کے ایک فیصلے کے مطابق ملازمین کے بچوں کو نوکریاں ترجیحی بنیادوں پر نہیں دی جا سکتیں۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے وضاحت دی کہ وہ فیصلہ 2024 میں دیا گیا تھا، جبکہ موجودہ کیس اس سے پہلے کا ہے، اس لیے اس فیصلے کا اطلاق اس کیس پر نہیں ہوتا۔
عدالتی استفسارات اور حکومتی مؤقف کی مخالفت
چیف جسٹس نے دوران سماعت استفسار کیا کہ خاتون کو نوکری دینے کے بعد اسے فارغ کیسے کر دیا گیا؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ چونکہ خاتون شادی شدہ تھی، اس لیے وہ والد کی جگہ نوکری کی اہل نہیں تھی۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے سخت ریمارکس دیے کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ شادی کے بعد بیٹی اپنے والد کی جگہ نوکری کی اہل نہیں رہتی؟
سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے والا ہے
عدالت نے واضح کیا کہ کوئی بھی سیکشن افسر قانون کی من مانی تشریح نہیں کر سکتا اور اس معاملے پر عدالت تفصیلی فیصلہ جاری کرے گی، جس میں خواتین کی معاشی خودمختاری کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے مقدمات کی سماعت روکنے کی درخواست مسترد کر دی