Monday, June 16, 2025
ہومArticlesجنید حفیظ توہینِ مذہب کیس: پاکستان میں انصاف کی جدوجہد

جنید حفیظ توہینِ مذہب کیس: پاکستان میں انصاف کی جدوجہد

جنید حفیظ توہینِ مذہب کیس

جنید حفیظ پاکستان کی ایک یونیورسٹی میں ایم فل انگریزی کے طالب علم تھے جہاں وہ وزیٹنگ ٹیچر کے طور پر
بھی تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ انہیں پاکستان کے وسیع ترین توہینِ مذہب کے قوانین کے تحت توہینِ مذہب کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی۔ 2013 میں گرفتار ہونے والے حفیظ پر سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ 2014 سے انہیں انفرادی حراست میں رکھا گیا اور ان کے مقدمے کی سماعت میں کئی بار تاخیر ہوئی، اور حفیظ کے پہلے وکیل رشید رحمان کو قتل کر دیا گیا۔ دسمبر 2019 میں حفیظ کو عدالت نے موت کی سزا سنائی۔ ان کی گرفتاری اور حراست پر انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے شدید مذمت کی گئی۔

پس منظر اور گرفتاری

 حفیظ کا تعلق راجن پور، پنجاب سے تھا اور انہوں نے لاہور کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کی۔ 2006 میں انہوں نے میڈیکل کی تعلیم چھوڑ کر بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں انگریزی ادب کی تعلیم پر توجہ دی۔ 2009 میں فل برائٹ اسکالر کے طور پر وہ جیکسن اسٹیٹ یونیورسٹی گئے، جہاں انہوں نے امریکی ادب، فوٹوگرافی اور تھیٹر میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ 2011 میں وہ بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان واپس آئے اور انگریزی ادب کے شعبہ میں گریجویٹ طالب علم اور وزیٹنگ لیکچرر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ یہاں ان کا تھیسس “ملتان میں مقبول سنیما میں مردانگی کا نسلیاتی مطالعہ” تھا۔

حفیظ کو اپنے آزاد خیالات کی وجہ سے اسلامی تنظیموں، اسلامی جمعیت طلبہ اور تحریک تحفظ ناموس رسالت کے گروپوں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔ ان گروپوں نے حفیظ کے خلاف اشتہار تقسیم کیے اور انہیں گرفتار کرنے اور پھانسی دینے کا مطالبہ کیا۔ جلد ہی انہیں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا اور ان کے رہائشی اور تدریسی معاہدے منسوخ کر دیے گئے۔

قید اور موت کی سزا

 حفیظ کو 13 مارچ 2013 کو ملتان سے گرفتار کیا گیا اور انہیں ساہیوال جیل میں قید کر لیا گیا۔ ان پر پاکستان کے تعزیری ضابطہ کی دفعہ 295-C کے تحت توہینِ مذہب کا الزام عائد کیا گیا، جو کسی بھی شخص کو حضرت محمد ﷺ کے نام کی توہین کرنے پر موت کی سزا دیتا ہے۔ حفیظ کو 2014 سے انفرادی حراست میں رکھا گیا اور انہیں مسلسل دیگر قیدیوں کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 2018 کے بعد ان کی حالت مزید بگڑ گئی اور ان کی جسمانی اور ذہنی صحت میں زوال آیا۔

حفیظ پر الزام تھا کہ انہوں نے فیس بک پر حضرت محمد ﷺ کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کیے اور برطانوی پاکستانی ناول نگار قیسرا شہراز کو مدعو کیا۔ انہیں یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے “ملا منافق” کے نام سے ایک فیس بک اکاؤنٹ استعمال کرتے ہوئے “پاکستان کے خود ساختہ لبرلز” کے گروپ میں حضرت محمد ﷺ کی بیویوں کے بارے میں تبصرے کیے۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ ان کے کمپیوٹر سے 1200 صفحات پر مشتمل مواد برآمد ہوا جس میں ان کی توہین ثابت ہوتی ہے۔

حفیظ کو وکیل کی تلاش میں شدید مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے مقدمات میں کسی بھی شخص کا دفاع کرنے والے وکلا کو عوامی سطح پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے پہلے وکیل مدثر نے جون 2013 میں کیس سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا کیونکہ انہیں متعدد موت کی دھمکیاں ملی تھیں۔ اس کے بعد رشید رحمان نے کیس سنبھالا اور انہیں بھی مختلف دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک سماعت کے دوران ان پر یہ کہا گیا کہ وہ اگلی سماعت تک زندہ نہیں رہیں گے۔ 7 مئی 2014 کو رحمان کو ان کے دفتر میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔

حفیظ کے کیس کی سماعت مختلف ججز کے سامنے ہوئی اور کئی بار مقدمے میں تاخیر کی گئی۔ نومبر 2019 میں حفیظ کے والدین نے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو ایک خط لکھا، جس میں کہا گیا کہ “ہمارا بیٹا ایک جھوٹے مقدمے میں انصاف کا منتظر ہے۔” انسانی حقوق کی تنظیموں نے حفیظ کی فوری رہائی اور پاکستان کے توہینِ مذہب کے قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ 2019 میں حفیظ کو ملتان سینٹرل جیل میں موت کی سزا سنائی گئی۔ اس فیصلے پر حفیظ کے خاندان اور انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے شدید ردعمل آیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسے “ظلم اور بدترین ناانصافی” قرار دیا اور انسانی حقوق کے کارکن آئی اے رحمان نے کہا: “یہ فیصلہ ظالمانہ اور ناانصافی ہے۔ وہ بے سبب چھ سال سے قید ہیں۔ پاکستان میں توہینِ مذہب کے مقدمات میں عدالتیں اکثر ملزمان کو بری نہیں کرتیں۔

حفیظ کے وکیل اسد جمال نے کہا کہ حفیظ فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔

Most Popular