امریکا میں سفارتی سرگرمیوں کی بھرپور پذیرائی
پاکستانی سفارتی وفد، جس کی قیادت سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کی، نے امریکا میں اقوام متحدہ، امریکی کانگریس ارکان اور حکومتی نمائندوں سے اہم ملاقاتیں کیں۔ وفد نے کشمیر، سندھ طاس معاہدہ، اور خطے میں بھارتی جارحیت جیسے اہم موضوعات پر پاکستان کا مؤقف مؤثر انداز میں پیش کیا، جسے امریکی اداروں اور سیاستدانوں کی جانب سے پذیرائی حاصل ہوئی۔
عالمی امن کی حمایت اور بھارتی پالیسیوں کی مخالفت
فیصل سبزواری نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے دنیا کو واضح پیغام دیا کہ ہم امن کے داعی ہیں، چاہے فوجی لحاظ سے برتری رکھتے ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت بغیر ثبوت حملے کی پالیسی اختیار کرنا چاہتا ہے، جیسا کہ پلوامہ واقعے میں دیکھا گیا، جس پر ہم نے عالمی برادری سے ثبوت کا مطالبہ کیا لیکن بھارت نے حملہ کیا۔
امریکی پالیسی سازوں سے اہم ملاقاتیں
وفد کے رکن خرم دستگیر خان نے بتایا کہ امریکیوں کو سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ بھارت نہ تو غیرجانبدار تحقیقات چاہتا ہے اور نہ مذاکرات، لہٰذا بین الاقوامی مداخلت ناگزیر ہے تاکہ جنوبی ایشیا میں امن قائم رکھا جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ امریکی محکمہ خارجہ اور کانگریس میں پاکستان کے امن پسند مؤقف کو سراہا گیا۔
کشمیر پر دوٹوک مؤقف اور مذاکرات کی پیشکش
وفد کی رکن شیری رحمان نے کہا کہ پاکستان مذاکرات چاہتا ہے، خاص طور پر مسئلہ کشمیر پر، مگر بھارتی وفد کا مقصد صرف پاکستان کو بدنام کرنا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مؤقف عالمی برادری کے سامنے واضح اور اصولی تھا۔
برطانیہ میں دورے کا اگلا مرحلہ
امریکا کا دورہ مکمل ہونے کے بعد وفد اب برطانیہ پہنچ گیا ہے جہاں پاکستانی سفارتی کوششوں کا اگلا مرحلہ شروع ہوگا۔ وفد کی رکن بشریٰ انجم بٹ نے بتایا کہ نیویارک اور واشنگٹن میں وفد کو زبردست پذیرائی ملی، اور پاکستان نے سندھ طاس معاہدے اور کشمیر جیسے اہم معاملات پر مؤثر سفارت کاری کی۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا نے سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کر دی