جنگ کا باضابطہ آغاز اور فضائی حملے
اسرائیل نے ایران کے خلاف باقاعدہ جنگ کا آغاز کر دیا ہے اور جمعہ کی صبح ایران کے مختلف علاقوں پر شدید فضائی حملے کیے گئے۔ اسرائیلی فضائیہ نے جوہری اور فوجی اہداف کو نشانہ بنایا، جن میں پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی، جوہری سائنسدان فرید عباسی اور محمد مہدی شہید ہو گئے ہیں۔ ایرانی سرکاری میڈیا نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کر دی ہے۔
تہران سمیت کئی علاقوں پر حملے
خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق اسرائیلی فضائی حملے ایران کے دارالحکومت تہران کے شمالی، مغربی اور وسطی علاقوں تک پھیلے ہوئے تھے، جہاں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں اور دھویں کے بادل بلند ہوتے دکھائی دیے۔ اصفحان صوبے میں بھی دھماکوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ اسرائیلی حکام کے مطابق یہ حملے ایران کی جوہری صلاحیت کو محدود کرنے کے لیے کیے گئے ہیں۔
اہم فوجی اور حکومتی اہداف کو نشانہ بنایا گیا
مریکی ذرائع کے مطابق اسرائیلی فضائی حملوں میں ایرانی فوجی قیادت کی رہائش گاہوں سمیت چھ بڑی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ تہران میں پاسداران انقلاب کے صدر دفتر اور ختم الانبیا ہیڈکوارٹر پر بھی حملے ہوئے، جن میں کمانڈر میجر جنرل غلام علی راشد شہید ہو گئے، جبکہ ایرانی سپریم لیڈر کے مشیر شمخانی شدید زخمی ہوئے ہیں۔
شہری علاقوں میں جانی نقصان
ایرانی میڈیا کے مطابق اسرائیلی حملے میں تہران کے رہائشی علاقے بھی متاثر ہوئے ہیں، جہاں کئی شہری جاں بحق ہوئے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ ایران نے فضائی حدود بند کر دی ہے اور امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر تمام پروازیں معطل کر دی گئی ہیں۔
اسرائیل کا موقف اور اہداف
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی یہ لڑائی ایرانی عوام سے نہیں بلکہ ایرانی آمریت سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ایران کے جوہری افزودگی کے نظام، بیلسٹک میزائل فیکٹریوں اور فوجی اہداف کو نشانہ بنایا ہے تاکہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکا جا سکے۔
ایران کی تیاری اور جوابی حملے کا خدشہ
ایران نے اعلان کیا ہے کہ اس کا فضائی دفاعی نظام مکمل طور پر الرٹ ہے اور سکیورٹی ادارے ہنگامی اجلاس میں صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ایران کی جانب سے ممکنہ بیلسٹک جوابی حملوں کے خطرے کے پیش نظر اسرائیل میں ہائی الرٹ نافذ کر دیا گیا ہے۔
امریکی مؤقف اور ردعمل
امریکی وزیر خارجہ مارک روبیو نے واضح کیا ہے کہ امریکا ان حملوں میں شریک نہیں ہے اور اس کی اولین ترجیح مشرق وسطیٰ میں موجود امریکی افواج کا تحفظ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے انہیں بتایا کہ یہ کارروائی اپنے دفاع کے لیے ضروری تھی۔ واضح رہے کہ یہ حملے امریکا اور ایران کے درمیان طے شدہ بلواسطہ مذاکرات سے دو روز قبل کیے گئے، جنہیں ایران پہلے ہی متنبہ کر چکا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا مؤقف
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں کہا تھا کہ اگر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ نہ ہوا تو اسرائیل ایران پر حملہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی انتظامیہ کو ایران کے ساتھ سخت مذاکرات کی ہدایت کی ہے تاکہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں:ایران پر اسرائیلی حملے میں ہمارا کوئی کردار نہیں: امریکا کی وضاحت