مشرق وسطیٰ میں امریکی مداخلت میں اضافہ
ایران کی جانب سے اسرائیل پر لگاتار حملوں کے بعد امریکا نے یوکرین سے میزائل دفاعی نظام مشرق وسطیٰ منتقل کردیے ہیں۔ امریکی وزیردفاع پیٹ ہیگسیتھ نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان سے بارہا پوچھا گیا کہ آیا کچھ دفاعی نظام یوکرین سے مشرق وسطیٰ منتقل کیے گئے ہیں تو ان کا جواب تھا: “ہاں، ہم نے ایسا کیا ہے۔” انہوں نے کہا کہ ہم اپنے تمام وسائل اس لیے استعمال کر رہے ہیں تاکہ خطے میں موجود امریکی شہریوں اور مفادات کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔
یوکرینی صدر کا ردعمل اور شکوہ
دوسری جانب یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے گلہ کیا ہے کہ روس کے خلاف دفاع کے لیے یوکرین کو فراہم کیے گئے تقریباً 20 ہزار میزائل اب مشرق وسطیٰ بھیج دیے گئے ہیں۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب یوکرین کو روسی حملوں کا سامنا ہے اور اسے بھرپور دفاعی امداد کی ضرورت ہے۔ زیلنسکی کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا نے یوکرین کو فوری دفاعی ضروریات کے باوجود ترجیح مشرق وسطیٰ کو دی ہے۔
علاقائی ممالک کی شمولیت اور امریکی کردار
گزشتہ روز امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے کچھ ممالک نے ایران کے حملے روکنے میں اسرائیل کی مدد کی ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ علاقائی اتحاد ایران کے خلاف سرگرم ہے۔
ٹکر کارلسن کے انکشافات اور ٹرمپ کا علم
معروف امریکی صحافی ٹکر کارلسن نے حیران کن انکشاف کیا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران پر اسرائیلی حملوں کا پیشگی علم تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ نہ صرف امریکا اس منصوبے سے واقف تھا بلکہ اس نے اس میں مکمل طور پر اسرائیل کی معاونت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ برسوں سے جاری امریکی فوجی امداد، ہتھیاروں کی فراہمی اور انٹیلیجنس شیئرنگ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ امریکا ان حملوں میں “گردن تک دھنسا ہوا ہے”۔
مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کا نیا باب
ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے ساتھ ساتھ امریکا کی براہ راست مداخلت اور یوکرین سے دفاعی نظام کی منتقلی عالمی سطح پر ایک نیا سفارتی اور عسکری بحران پیدا کر رہی ہے۔ یوکرین کے تحفظات اور ایران کے خلاف بننے والا نیا اتحاد عالمی منظرنامے پر گہرے اثرات مرتب کرسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اردن فضائیہ نے اسرائیل کیجانب پرواز کرنیوالا ایرانی ڈرون مار گرایا