Tuesday, June 17, 2025
ہومPoliticsسانحہ ماڈل ٹاؤن کی 11ویں برسی: انصاف کی جدوجہد جاری

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی 11ویں برسی: انصاف کی جدوجہد جاری

سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کی گیارہویں برسی پر ہمارے دلوں میں غم کی شدت ہے، لیکن ساتھ ہی یہ اطمینان بھی ہے کہ شہداء کے ورثاء اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی انصاف کے حصول کی جدوجہد گیارہ سال بعد بھی غیر متزلزل عزم اور پختگی کے ساتھ جاری ہے۔ شہداء کے لواحقین کا ڈاکٹر طاہرالقادری پر مکمل اعتماد اور یقین قابلِ تحسین ہے۔ انہوں نے گزشتہ گیارہ برسوں میں ہر لمحہ انصاف کے لیے وقف کیا، اور الحمدللہ، نہ تو قیادت کے جذبے میں کوئی کمی آئی اور نہ ہی شہداء کے ورثاء کی ہمت اور عزم کو وقت کی کوئی طاقت ڈگمگا سکی۔

17 جون 2014ء پاکستان کی تاریخ کا ایک اندوہناک دن ہے، جب نواز اور شہباز کی سربراہی میں حکومت نے ایک منصوبہ بند حملے کے تحت منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ اور شیخ الاسلام کی رہائش گاہ پر ریاستی دہشت گردی کی۔ اس واقعے میں پاکستان عوامی تحریک اور منہاج القرآن کے نہتے کارکنوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ اس سانحے میں 14 افراد شہید ہوئے، جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں، جبکہ 100 سے زائد افراد شدید زخمی ہوئے۔ میڈیا کے ذریعے پوری دنیا نے اس دلخراش منظر کو براہ راست دیکھا۔

یہ سانحہ ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھا۔ واقعے کے بعد ملوث پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی، بلکہ انہیں اعلیٰ عہدوں اور ترقیوں سے نوازا گیا۔ اس سانحے کا پس منظر یہ ہے کہ 2010ء میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے دہشت گردی کے خلاف 600 صفحات پر مشتمل تاریخی فتویٰ جاری کیا، جسے عالمی سطح پر پذیرائی ملی۔ اس فتوے نے دہشت گردوں کو بوکھلا دیا، اور انہوں نے شیخ الاسلام کو دھمکیاں دینا شروع کیں۔ پاکستانی ایجنسیوں نے بھی ان دھمکیوں سے تحریری طور پر آگاہ کیا تھا۔

اس صورتحال کے پیش نظر، لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر پولیس نے منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ اور اطراف میں حفاظتی بیریئرز نصب کیے۔ 20 جنوری 2011ء کو اس وقت کے ایس پی ماڈل ٹاؤن ایاز سلیم نے عدالت میں تحریری یقین دہانی کروائی کہ سیکیورٹی کے لیے 16 پولیس اہلکار 24 گھنٹے تعینات کیے گئے ہیں اور متعلقہ سڑکوں پر جرسی بیریئرز رکھوا دیے گئے ہیں۔

تاہم، جب شیخ الاسلام نے 2014ء میں مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور آئین کی بالادستی کے لیے تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا، تو حکومت نے اسے کچلنے کی منصوبہ بندی کی۔ 16 جون 2014ء کو وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ بیریئرز ہٹانے کے بہانے منہاج القرآن سیکرٹریٹ پر حملہ کیا جائے گا۔ اگلے دن اس منصوبے پر عمل درآمد ہوا، اور براہ راست گولیاں چلا کر 14 افراد کو شہید اور متعدد کو زخمی کیا گیا۔

سانحے کے بعد متاثرین کی ایف آئی آر درج نہ کی گئی۔ متاثرین نے جسٹس آف پیس کی عدالت سے رجوع کیا، جس نے 16 اگست 2014ء کو ایف آئی آر کے اندراج کا حکم دیا۔ تاہم، پولیس نے اس حکم کی تعمیل نہ کی۔ ملزمان نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا، لیکن 26 اگست 2014ء کو ان کی درخواست مسترد ہوئی۔ بالآخر 28 اگست 2014ء کو مقدمہ نمبر 696/14 تھانہ فیصل ٹاؤن میں درج ہوا۔ لیکن ساتھ ہی پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے خلاف 50 سے زائد جھوٹی ایف آئی آرز درج کی گئیں تاکہ متاثرین شاملِ تفتیش نہ ہو سکیں۔

اسی دن پولیس کی مدعیت میں جھوٹی ایف آئی آر نمبر 510/14 درج کی گئی، جس کے تحت زخمیوں اور شہداء کے لواحقین کو گرفتار کیا گیا۔ اس ظلم کے خلاف اگست 2014ء میں اسلام آباد تک لانگ مارچ اور اکتوبر 2014ء تک 72 دن کا دھرنا دیا گیا، جس کے نتیجے میں پاکستان عوامی تحریک اپنی ایف آئی آر درج کرانے میں کامیاب ہوئی۔

مقدمہ نمبر 510/14 میں تشکیل دی گئی جے آئی ٹی میں دو ایجنسیوں (ایم آئی اور آئی ایس آئی) کے نمائندوں نے اسے ختم کرنے کی سفارش کی، لیکن اس کے باوجود چالان انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس مقدمے میں 600 سے زائد تاریخیں ہو چکی ہیں۔ جے آئی ٹی نے پولیس سے استعمال شدہ اسلحہ کی تفصیلات مانگیں، لیکن پولیس نے فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ ایلیٹ فورس کے انچارج عبدالرؤف نے تفتیش کے دوران اعتراف کیا کہ ان کی ٹیم نے 469 ایس ایم جی اور 59 جی تھری راؤنڈز فائر کیے، لیکن بعد میں انہوں نے ریکارڈ تبدیل کرنے کی بات تسلیم کی۔

حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی نے متعصبانہ تفتیش کی اور اہم شواہد کو نظر انداز کیا۔ میڈیا ریکارڈ، ٹیلی فون ڈیٹا، اور چشم دید گواہوں کے بیانات کو شاملِ تفتیش نہ کیا گیا۔ اس جے آئی ٹی نے ملزمان کو کلین چٹ دی اور متاثرین کی داد رسی نہ کی۔

اس صورتحال میں متاثرین نے انسداد دہشت گردی عدالت میں استغاثہ دائر کیا۔ 7 فروری 2017ء کو عدالت نے 124 ملزمان کو طلب کیا، لیکن اہم ملزمان جیسے نواز شریف، شہباز شریف، اور رانا ثناء اللہ کو شامل نہ کیا گیا۔ 2018ء میں تنزیلہ امجد کی بیٹی بسمہ امجد نے سپریم کورٹ میں نئی جے آئی ٹی کے قیام کی درخواست دی، جس پر 5 دسمبر 2018ء کو سپریم کورٹ نے نئی جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا۔

3 جنوری 2019ء کو پنجاب حکومت نے اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں نئی جے آئی ٹی تشکیل دی، جس نے 14 جنوری سے 20 مارچ 2019ء تک تفتیش کی اور تمام متاثرین کے بیانات ریکارڈ کیے۔ تاہم، حقائق سامنے آنے کے خوف سے ملزمان نے لاہور ہائی کورٹ کے ذریعے اس جے آئی ٹی کو 22 مارچ 2019ء کو معطل کروا دیا۔

جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ میں پنجاب حکومت اور پولیس کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا، لیکن اس کے ساتھ منسلک اہم دستاویزات متاثرین کو فراہم نہ کی گئیں۔ ان دستاویزات کے حصول کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ زیر سماعت ہے۔

انسداد دہشت گردی عدالت نے کئی ملزمان کو بری کر دیا، جبکہ دیگر نے بریت کی درخواستیں دائر کی ہیں۔ شفاف تفتیش کے بغیر انصاف ممکن نہیں۔ نئی جے آئی ٹی کی بحالی کے بغیر متاثرین کو انصاف نہیں مل سکتا۔ سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کو تین ماہ میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کی تھی، لیکن سات رکنی بنچ نے تاحال فیصلہ نہیں کیا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی جدوجہد ڈاکٹر طاہرالقادری کی قیادت میں جاری ہے۔ یہ جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک شہداء کے ورثاء کو انصاف نہ ملے اور ملزمان کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا جائے۔

Most Popular