اسرائیلی دعویٰ اور پیشگی دفاع کا مؤقف
اسرائیل نے ایران پر حالیہ حملے کو “پیشگی دفاع” قرار دیا، جس میں اسرائیلی حکومت کا مؤقف تھا کہ ایران کی جوہری اور عسکری تنصیبات کو تباہ کرنا ناگزیر تھا۔ اسرائیلی حکام نے مؤقف اختیار کیا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے قریب ہے، لہٰذا اس سے پہلے کارروائی کرنا ضروری تھا۔
IAEA رپورٹ کا حوالہ اور اس کی حقیقت
اسرائیلی دعویٰ تھا کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی 12 جون 2025ء کی رپورٹ میں ایران پر جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا۔ لیکن IAEA نے اس دعوے کی باضابطہ تردید کر دی۔ ماہرین کے مطابق کوئی فوری جوہری خطرہ موجود نہیں تھا جو حملے کا جواز بنتا۔
ماہرین کی رائے اور حملے کی نوعیت
مشرقِ وسطیٰ اُمور کے ماہرین، خاص طور پر اسرائیلی تجزیہ کار اُوری گولڈ برگ کے مطابق پیشگی دفاع کا جواز صرف ہنگامی صورتحال میں بنتا ہے، جو اس حملے میں دکھائی نہیں دیتی۔ اسرائیلی حملہ جوہری تنصیبات کے بجائے فوجی و سرکاری تنصیبات، توانائی ذخائر، اور ایران کی عسکری قیادت پر ہوا، جن میں معروف ایٹمی مذاکرات کار علی شام خانی بھی شامل تھے۔
رجیم چینج کا مفروضہ اور عوامی ردعمل
اسرائیل کی جانب سے رجیم چینج کو بھی حملے کا جواز بنایا گیا۔ وزیراعظم نیتن یاہو کو امید تھی کہ ایرانی عوام حملے کے دوران حکومت کے خلاف بغاوت کریں گے، لیکن یہ محض خوش فہمی ثابت ہوئی۔ ایرانی عوام ماضی کی طرح اس بار بھی بیرونی جارحیت کے خلاف متحد ہو گئے۔
غزہ کی نسل کشی اور عالمی دباؤ سے توجہ ہٹانا
ماہرین کے مطابق اسرائیل نے یہ حملہ ایسے وقت میں کیا جب غزہ میں فلسطینی نسل کشی پر عالمی ردعمل بڑھ رہا تھا، اور فلسطینی ریاست کو عالمی سطح پر تیزی سے تسلیم کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی نیتن یاہو کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کی جانب سے گرفتاری کے وارنٹ جاری ہو چکے تھے۔ ایسے حالات میں اسرائیل نے ایران پر حملہ کر کے توجہ ہٹانے کی کوشش کی۔
جارحیت کا بیانیہ اور نیتن یاہو کا نظریہ
نیتن یاہو برسوں سے ایسے حملے کی تیاری کر رہے تھے۔ ان کا بیانیہ یہ رہا ہے کہ اسرائیل جب چاہے، جہاں چاہے، جسے چاہے نشانہ بنا سکتا ہے اور کسی کو جوابدہ نہیں۔ یہی بیانیہ اسرائیل کی غزہ، یمن، لبنان، شام اور اب ایران تک پھیلی جارحیت کی بنیاد ہے۔
اندرونی سیاست اور اسرائیلی معاشرہ
فی الحال اسرائیلی عوام ایک اجتماعی بقا کی فضا میں ہیں، اور نیتن یاہو کے لیے یہ قومی یکجہتی فائدہ مند ہے۔ تاہم، یہ سوچ ایک پائیدار اور مستحکم معاشرے کے لیے خطرناک اشارہ ہے، جو مستقبل میں داخلی بحرانوں کو جنم دے سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایران اسرائیل کشیدگی میں شدت: حملے، دھمکیاں، عالمی ردعمل اور سفری معطلی