پاکستان میں شوگر کی شرح سب سے زیادہ
عالمی سطح پر ذیابیطس (شوگر) کے مریضوں کی تعداد میں تشویشناک اضافہ ہو رہا ہے، تاہم پاکستان اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر آ چکا ہے۔ انٹرنیشنل ڈائبیٹیز فیڈریشن کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی بالغ آبادی میں ذیابیطس کی شرح 30.8 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
مشرق وسطیٰ اور ایشیائی ممالک میں بھی بلند شرح
پاکستان کے بعد ذیابیطس کی بلند شرح کویت (24.9٪)، مصر (20.9٪)، قطر (19.5٪)، ملائیشیا (19٪) اور سعودی عرب (18.7٪) جیسے ممالک میں دیکھی گئی ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے ممالک ذیابیطس کے شدید خطرے سے دوچار ہیں، جس کی بڑی وجہ غیر صحت مند طرزِ زندگی، ناقص خوراک اور ورزش کی کمی بتائی جاتی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں شوگر کی نسبتاً کم شرح
مغربی دنیا کے ممالک جیسے کہ امریکہ (10.7٪)، کینیڈا (7.7٪)، برطانیہ (6.3٪)، فرانس (5.3٪) اور آسٹریلیا (6.4٪) میں ذیابیطس کی شرح نسبتاً کم ہے، تاہم وہاں بھی تیزی سے اضافے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کی صورتحال
پاکستان کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک بھی ذیابیطس کی لپیٹ میں ہیں۔ بنگلہ دیش میں یہ شرح 14.2٪، سری لنکا میں 11.3٪ اور بھارت میں 9.6٪ ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس خطے میں مٹھاس کا زیادہ استعمال، روایتی کھانے اور کم جسمانی سرگرمیاں شوگر میں اضافے کی بڑی وجوہات سمجھی جاتی ہیں۔
ذیابیطس کے پھیلاؤ کی عالمی تشویش
ان اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذیابیطس ایک عالمی مسئلہ بنتا جا رہا ہے، جو نہ صرف صحت بلکہ معیشت پر بھی بوجھ ڈال رہا ہے۔ صحت کے ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وقت پر تشخیص، طرزِ زندگی میں تبدیلی، متوازن غذا، اور باقاعدہ جسمانی سرگرمیاں ذیابیطس سے بچاؤ میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔
پاکستان میں صحت عامہ کے لیے خطرے کی گھنٹی
پاکستان میں ذیابیطس کی 30.8٪ شرح نہ صرف انفرادی صحت کے لیے خطرناک ہے بلکہ یہ صحت عامہ کے نظام پر شدید دباؤ بھی ڈال رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والے برسوں میں پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد ناقابلِ تصور حد تک بڑھ سکتی ہے۔ اس کے لیے قومی سطح پر مہمات، تعلیم اور بنیادی صحت کی سہولیات میں بہتری ناگزیر ہو چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:روزانہ مچھلی کے تیل کے کیپسول کھانے سے صحت پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں