شام میں بشار الاسد کی حکومت گرانے والے ابو محمد الجولانی کون ہیں؟
شام میں حالیہ انقلاب نے دنیا کو حیران کر دیا ہے، جہاں حزبِ اختلاف کے اتحاد ‘حیات تحریر الشام’ اور اس کے رہنما ابو محمد الجولانی نے نمایاں کردار ادا کیا۔ دارالحکومت دمشق میں حزبِ اختلاف کی پیش قدمی کے بعد صدر بشار الاسد نامعلوم مقام کی جانب روانہ ہو گئے، جس سے مشرق وسطیٰ میں ایک نئی تبدیلی کے اشارے ملے۔
ابو محمد الجولانی کا پس منظر
ابو محمد الجولانی، جن کا اصل نام احمد حسین ہے، 1982 میں دمشق کے ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ مزہ جیسے پوش علاقے میں پروان چڑھے۔ الجولانی نے اپنی ابتدائی شناخت کے لیے 27 نومبر کو ایک نئے نام کے ساتھ اپنے بیانات جاری کرنا شروع کیے۔ انہوں نے اپنے نام کو گولان کی پہاڑیوں سے منسوب کیا، لیکن کچھ رپورٹس کے مطابق ان کا اصل تعلق عراق کے علاقے الجولان سے ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہمیں شام کی جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے: ڈونلڈ ٹرمپ کا واضح مؤقف
شدت پسندی کی جانب رجحان
11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر حملوں کے بعد الجولانی انتہا پسند نظریات کی طرف مائل ہوئے۔ رپورٹس کے مطابق، انہوں نے دمشق میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کی، لیکن عراق پر 2003 کے امریکی حملے کے دوران تعلیم چھوڑ کر القاعدہ میں شمولیت اختیار کی۔ عراق میں وہ ابو مصعب الزرقاوی کے قریبی ساتھی بنے اور بعد میں لبنان منتقل ہو گئے۔
حیات تحریر الشام کی تشکیل
2008 میں امریکی قید سے رہائی کے بعد، الجولانی نے القاعدہ سے علیحدہ ہو کر شام میں ایک نئی تنظیم قائم کی۔ 2013 میں انہوں نے داعش کے امیر ابوبکر البغدادی کی بیعت سے انکار کرتے ہوئے القاعدہ کے ایمن الظواہری کے ساتھ وفاداری کا عہد کیا، لیکن بعد میں القاعدہ سے بھی تعلقات توڑ لیے۔
اعتدال پسندی کا دعویٰ
2016 کے بعد الجولانی نے خود کو ایک اعتدال پسند رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مغرب کے خلاف حملوں کا کوئی ارادہ نہیں اور بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد انتقامی کارروائیوں سے گریز کیا جائے گا۔ ان کی تنظیم نے شمال مغربی شام میں ایک سویلین حکومت قائم کی، لیکن انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے ان پر زیادتیوں کے الزامات لگتے رہے۔
موجودہ صورتحال
ابو محمد الجولانی اور ان کی تنظیم ایچ ٹی ایس شام کے شمال مغربی علاقوں میں اپنی گرفت مضبوط کر چکے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں مقامی رہائشیوں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا کہ نئی حکومت ان کے حقوق کا تحفظ کرے گی اور امن قائم رکھے گی۔