اے پی ایس حملے کے دس سال، شہباز شریف کا بیان: “ہم سب اپنے بچوں اور اساتذہ کی قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں، ان کے خاندانوں کی قربانیوں اور سکیورٹی فورسز کی بہادری کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں”۔
پشاور کے آرمی پبلک سکول پر 16 دسمبر 2014 کو ہونے والے حملے کے نتیجے میں 150 افراد، جن میں بچے اور اساتذہ شامل تھے، شہید ہوئے تھے۔ اس سانحے کے بعد پورے ملک میں سوگ کی فضا تھی اور اس نے قوم کو دہشت گردی کے خلاف یکجہتی کا مظاہرہ کرنے پر مجبور کیا تھا۔ وزیرِ اعظم نے اس سانحے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ “یہ دل دہلا دینے والا واقعہ تھا جس نے ہمارے دلوں میں آج بھی ایک اذیت بھری یاد چھوڑ رکھی ہے۔ ہم کبھی نہیں بھولیں گے اور ہم کبھی معاف نہیں کریں گے”۔
2014 کے حملے کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان (NAP) ترتیب دیا گیا تھا جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور عسکری حکام نے شدت پسندی کے خلاف ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم، موجودہ صورتحال میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کی کارروائیاں دوبارہ بڑھ رہی ہیں، خاص طور پر خیبر پختونخوا میں۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی سرحدی کارروائیوں کے باعث یہ حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اختلافات بھی شدت پسندی کے فروغ کا سبب بن رہے ہیں، کیونکہ حکومتی سطح پر ایک آواز میں کوئی اتفاق نہیں ہے۔
پشاور کے صحافی و تجزیہ کار محمود جان بابر نے کہا کہ “2014 کے آپریشن کے بعد شدت پسندوں نے فرار ہو کر دوبارہ تنظیم سازی شروع کر دی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومتیں آپس میں لڑ رہی ہیں اور یہ ان کے لیے بہترین موقع ہے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے دور میں عمران خان طالبان کے خلاف کارروائی کے حق میں نہیں تھے اور ان کی پالیسی مختلف تھی۔ آج کی سیاسی کشمکش نے شدت پسندوں کو فائدہ پہنچایا ہے۔
آنے والے آپریشنز کے بارے میں محمود جان بابر نے کہا کہ “سوات آپریشن اس لیے کامیاب رہا کیونکہ تمام سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پر تھی، لیکن اب ایسی یکجہتی کا فقدان ہے”۔
اس کے علاوہ، رفعت اللہ اورکزئی نے کہا کہ “سیاسی اختلافات کی وجہ سے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں پر عوام کا اعتماد متاثر ہو رہا ہے، کیونکہ عوام کو لگتا ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں اپنے اختلافات کی وجہ سے اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں”۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ شدت پسندی کو سنجیدہ نہیں لے رہے اور ان کے سیاسی اختلافات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کو عملی طور پر مکمل طور پر نافذ نہیں کیا جا سکا۔
آرمی پبلک سکول کے سانحے کے بعد کی سیاست اور آپریشنز کے درمیان خلا نے ملک میں عوامی اعتماد کو مجروح کیا ہے، اور اس کی اصل وجہ سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان اتحاد کا فقدان ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سانحہ پشاور اے پی ایس:پاکستان کی تاریخ کا دل دہلا دینے والا واقعہ