عورت مارچ کے مظاہرین نے فیشن ڈیزائنر ماریہ بی کے خلاف پلے کارڈز اٹھا کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کا اعتراض ماریہ بی کے ان بیانات پر تھا جن میں انہوں نے ٹرانس جینڈر افراد اور متعلقہ قوانین کی مخالفت کی تھی۔ انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ خواتین کی یونیورسٹیوں میں ایسے افراد کو داخلہ دیا جا رہا ہے جو بائیولوجیکل طور پر مرد ہیں، جس سے تعلیمی ادارے خواتین کے لیے غیر محفوظ ہو سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ ماریہ بی نے اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کا عندیہ بھی دیا تھا، جس پر عورت مارچ کے شرکاء نے شدید ردعمل دیا۔
اسی طرح، ماریہ بی کے ان خیالات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جن میں انہوں نے عورت مارچ کو منفی اصطلاحات سے تعبیر کیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ یہ حقیقی پاکستانی خواتین کی نمائندگی نہیں کرتا۔ ان کا مؤقف تھا کہ یہ مارچ خاندانی اقدار اور اسلامی اصولوں کے خلاف ایک مخصوص ایجنڈا چلا رہا ہے، جو غیر ملکی فنڈنگ سے ممکن ہو رہا ہے۔ ان بیانات کے ردعمل میں عورت مارچ کے شرکاء نے احتجاجی پلے کارڈز تیار کیے اور ان خیالات کی
سخت مخالفت کی۔
یہ بھی پڑھیں: ماریہ بی نے فلسطین کے لیے 70 لاکھ روپے کا عطیہ دے کر انسانیت کی مثال قائم کر دی