پاکستانی قانون کی دفعات 295A اور 295C: ایک تاریخی اور قانونی جائزہ
پاکستان میں مذہبی جذبات کے تحفظ کے لیے کئی قوانین نافذ ہیں، جن میں دفعہ 295A اور 295C نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ قوانین کسی بھی مذہب کے خلاف نفرت انگیز بیانات، گستاخانہ الفاظ یا توہین آمیز حرکات کی روک تھام کے لیے بنائے گئے ہیں۔ دفعہ 295A عمومی طور پر تمام مذاہب کے احترام پر زور دیتی ہے، جبکہ 295C نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کے خلاف سخت سزا مقرر کرتی ہے۔ اس مضمون میں ان قوانین کی تفصیلات، تاریخ اور اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
دفعہ 295A: مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا قانون
پسِ منظر:
دفعہ 295A کا نفاذ 1927 میں برطانوی راج کے دوران ہوا، جب ایک ہندو پبلشر راج پال نے گستاخانہ کتاب “رنگیلا رسول” شائع کی، جس پر مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا۔ اُس وقت کے قوانین کے تحت راج پال کو سزا نہ دی جا سکی، جس کے بعد برطانوی حکومت نے یہ قانون متعارف کرایا تاکہ کسی بھی مذہب کے خلاف نفرت انگیز مواد کو روکا جا سکے۔
یہ دفعہ ایسے کسی بھی شخص پر لاگو ہوتی ہے :
- جو جان بوجھ کر، بدنیتی پر مبنی الفاظ یا تحریر کے ذریعے کسی بھی مذہب کی توہین کرے۔
- کسی خاص مذہبی گروہ کے خلاف نفرت، دشمنی یا بدامنی کو ہوا دے۔
- مذہبی مقدسات، کتابوں یا نشانیوں کی بے حرمتی کرے۔
سزا:
اگر کوئی شخص اس قانون کے تحت مجرم ثابت ہو جائے تو 10 سال قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
دفعہ 295C: توہینِ رسالت سے متعلق قانون
پسِ منظر:
پاکستان میں توہینِ رسالت کے قوانین کو سخت کرنے کی تحریک 1980 کی دہائی میں چلی، جب جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں اسلامی قوانین کو مزید سخت کیا گیا۔ 15 جولائی 1986 کو قومی اسمبلی میں دفعہ 295C کو شامل کیا گیا، جس میں نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کرنے پر سخت سزا تجویز کی گئی۔
یہ قانون ایسے کسی بھی شخص پر لاگو ہوتا ہے
• جو نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخانہ الفاظ ادا کرے۔
• تحریری، زبانی یا تصویری صورت میں کوئی ایسا مواد تخلیق کرے جو توہینِ رسالت کے زمرے میں آتا ہو۔
• نبی کریمﷺ کی حرمت کے خلاف کوئی اشارہ یا حرکت کرے۔
سزا:
1990 میں وفاقی شرعی عدالت نے حکم دیا کہ توہینِ رسالت کی واحد سزا سزائے موت ہوگی۔ 1992 میں نواز شریف حکومت میں عمر قید کی سزا ختم کر کے سزائے موت کو لازمی قرار دے دیا گیا۔
دونوں قوانین کا تقابلی جائزہ
دفعہ | موضوع | سزا |
---|---|---|
295A | کسی بھی مذہب کے خلاف نفرت انگیز بات کرنا یا مذہبی جذبات کو مجروح کرنا | 10 سال قید + جرمانہ |
295C | نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کرنا | سزائے موت یا عمر قید + جرمانہ |
یہ قوانین مذہبی جذبات کے تحفظ کے لیے نافذ کیے گئے ہیں اور ان پر سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ دفعہ 295A مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے بنائی گئی، جبکہ dفعہ 295C خصوصی طور پر نبی کریمﷺ کے احترام کے لیے نافذ کی گئی۔ ان قوانین کے تحت کئی مشہور مقدمات سامنے آ چکے ہیں، اور ان کا نفاذ پاکستانی عدالتی نظام کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔
مشہور مقدمات
کئی افراد پر ان قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے، جن میں کچھ معروف کیسز درج ذیل ہیں:
غازی علم دین شہید (1929) – راج پال کے خلاف گستاخانہ مواد شائع کرنے پر ایک نوجوان علم دین نے اسے قتل کر دیا، جس کے بعد انہیں سزائے موت دی گئی۔ یہ مقدمہ برصغیر میں مذہبی جذبات کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔
آسیہ بی بی کیس (2010) – ایک عیسائی خاتون پر توہینِ رسالت کا الزام لگا، جس پر انہیں سزائے موت سنائی گئی، مگر بعد میں سپریم کورٹ نے ثبوتوں کی عدم موجودگی پر انہیں بری کر دیا۔ یہ کیس عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بنا۔
سلمان تاثیر قتل کیس (2011) – پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ان کے اپنے محافظ ممتاز قادری نے قتل کر دیا، کیونکہ وہ آسیہ بی بی کے مقدمے میں قانون میں نرمی کے حامی تھے۔ ممتاز قادری کو بعد میں پھانسی دی گئی۔
جنید حفیظ کیس (2013) – ایک پروفیسر پر توہینِ رسالت کا الزام لگایا گیا اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
مشعال خان کیس (2017) – مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں ایک طالبعلم مشعال خان پر گستاخی کا الزام لگا کر اسے ہجوم نے قتل کر دیا، بعد میں عدالت نے کئی مجرموں کو سزا دی۔
دفعہ 295A اور 295C دونوں مذہبی احترام اور ہم آہنگی کے فروغ کے لیے انتہائی اہم قوانین ہیں۔ تاہم، ان قوانین پر مختلف حلقوں میں بحث جاری رہتی ہے کہ ان کا صحیح استعمال اور غلط استعمال کیسے روکا جائے۔ پاکستان میں ان قوانین کو مذہبی اور قانونی حلقوں میں انتہائی حساس سمجھا جاتا ہے، اور ان کی تشریح اور اطلاق ایک مسلسل زیر بحث موضوع ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رجب بٹ کے خلاف پیکا ایکٹ اور توہین مذہب کے تحت مقدمہ درج