ہیکلِ سلیمانی اور تابوتِ سکینہ کی مکمل حقیقت مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے تاریخی اور روحانی اہمیت کی حامل ہے۔
یہ داستان نہ صرف عقائد سے جڑی ہے بلکہ خطے کی سیاسی اور مذہبی کشمکش کی بنیاد بھی بن چکی ہے۔
یہودی اسے اپنی عظمت کی علامت مانتے ہیں جبکہ مسلمانوں کے لیے یہ مقام قبلہ اول کی نسبت سے محترم ہے۔تابوتِ سکینہ اور ہیکل کی تاریخ آج بھی دنیا کے بڑے تنازعات میں شامل ہے
حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے، جن میں ایک بیٹے یہودا کی نسل سے یہودی بنے۔یہودی مصیبت کے دور میں حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع علیہما السلام کے حکم پر فلسطین کی طرف روانہ ہوئے۔وہ فلسطین پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، جسے وہ اپنے “وعدے کی سرزمین” سمجھتے ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ یہاں پر ان کے انبیاء اور بادشاہوں کی میراث قائم تھی
تابوتِ سکینہ: انبیاء کا ورثہ اور روحانی طاقت کی علامت
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کے تین عظیم رہنما ہوئے، جن میں حضرت طالوت، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان شامل ہیں۔
روایات کے مطابق حضرت داؤد نے حضرت طالوت کی بیٹی سے شادی کی تھی، جس سے بادشاہی کو تقویت ملی۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک مقدس عبادت گاہ بنانے کا ارادہ کیا۔
یہی عبادت گاہ بعد میں “ہیکلِ سلیمانی” کے نام سے مشہور ہوئی۔
تابوتِ سکینہ ایک مقدس صندوق تھا جو حضرت آدم سے لے کر حضرت داؤد اور سلیمان تک پہنچا۔
تابوتِ سکینہ کیا تھا؟
تابوتِ سکینہ ایک مقدس صندوق تھا جس کی ابتدا حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور یہ نسل در نسل انبیاء کرام تک پہنچتا رہا، یہاں تک کہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام تک پہنچا۔
اس تابوت میں شامل اشیاء:
• لوحِ قرآنی
• حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا
• حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہِ سینا پر دی گئی اصل تختیاں
• آسمان سے اترنے والی غذا (من و سلویٰ) کا برتن
تابوت کو بنی اسرائیل اپنے ساتھ رکھتے اور اسے بطور قبلہ استعمال کرتے تھے۔
یہ تابوت ان کے لیے روحانی طاقت، تسلی اور فتح کی علامت تھا۔
قرآن کریم میں بھی تابوتِ سکینہ کا ذکر موجود ہے، جیسا کہ سورہ البقرہ آیت 248 میں بیان ہوا۔
وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ ٱلتَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌۭ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌۭ مِّمَّا تَرَكَ ءَالُ مُوسَىٰ وَءَالُ هَـٰرُونَ تَحْمِلُهُ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ ۚ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَـَٔايَةًۭ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
:ترجمہ
“اور ان سے ان کے نبی نے کہا: اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس ایک تابوت آئے گا، جس میں تمہارے رب کی طرف سے سکون و اطمینان ہو گا، اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہوں گی جو آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون چھوڑ گئے تھے، اس کو فرشتے اٹھا کر لائیں گے۔ بے شک اس میں تمہارے لیے ایک نشانی ہے، اگر تم ایمان رکھنے والے ہو۔”
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ تابوت تمہارے رب کی طرف سے نشانی ہے جس میں موسیٰ اور ہارون کا ترکہ موجود ہے۔
یہ فرشتے اٹھا کر لاتے ہیں، جو اس کے روحانی مرتبے کو ظاہر کرتا ہے۔
یہی تابوت بنی اسرائیل کے لیے فتح اور دل کی تسکین کا ذریعہ تھا۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے تابوت کی حفاظت کے لیے ایک عظیم معبد بنانے کا ارادہ کیا، لیکن وہ مکمل نہ کر سکے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں یہ معبد مکمل ہوا اور ہیکلِ سلیمانی کہلایا۔
یہ عبادت گاہ نہ صرف تابوت کی حفاظت کے لیے تھی بلکہ بنی اسرائیل کے روحانی مرکز کے طور پر قائم ہوئی۔
یہ ہیکل ایک شاندار اور روحانی عظمت کی علامت بن گئی۔
بابلیوں نے ہیکلِ سلیمانی پر حملہ کیا اور اسے پہلی بار مکمل طور پر تباہ کر دیا۔
کچھ روایات کے مطابق تابوت یا تو ان کے ساتھ بابل لے جایا گیا یا آسمان پر اٹھا لیا گیا۔
بعد میں بنی اسرائیل نے ہیکل کو دوبارہ تعمیر کیا تاکہ اپنی میراث بحال رکھ سکیں۔
تاہم وقت کے ساتھ یہ مقام پھر ایک بار خطرے میں آ گیا۔
رومیوں نے دوسری بار ہیکل کو تباہ کیا اور اس مقام پر ایک عیسائی چرچ قائم کر دیا۔
یہودیوں کا اس مقام پر دعویٰ آج بھی برقرار ہے، جبکہ مسلمانوں کے نزدیک یہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے۔
جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس فتح کیا تو وہ ہیکل کی جگہ پر مسجد بنانے کا حکم دیا۔
یوں مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول بن گئی اور روحانی مرکز بھی۔
آج یہودی اس مقام پر دوبارہ ہیکل بنانے کے خواب دیکھتے ہیں، جس کے لیے مسجد اقصیٰ کی شہادت چاہتے ہیں۔
ان کا عقیدہ ہے کہ ان کا آخری بادشاہ اسی دروازے سے نکلے گا جہاں اب مسجد ہے۔
یہودی اس دروازے کے سامنے قبریں بناتے ہیں تاکہ جب ان کا بادشاہ آئے تو مردے زندہ ہو کر اس کے پیچھے چلیں۔
اسلامی عقیدہ ہے کہ یہ بادشاہ دراصل دجال ہو گا جو فتنہ لے کر آئے گا۔
یہودی مسجدِ اقصیٰ کے پیچھے کیوں پڑے؟
یہودیوں کے نزدیک یروشلم میں کبھی حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مقدس عبادت گاہ تعمیر کی تھی جسے وہ “ہیکلِ سلیمانی” کہتے ہیں۔
یہ ہیکل دو بار تاریخ میں تباہ ہوئی — ایک بار بابل کے بادشاہ بخت نصر کے ہاتھوں، اور دوسری بار رومیوں کے ہاتھوں 70 عیسوی میں۔
تباہی کے بعد یہودی مسلسل اس مقام کو مقدس مانتے رہے اور اسے دوبارہ تعمیر کرنے کا خواب سنبھالے بیٹھے ہیں۔
آج وہ مانتے ہیں کہ اسی مقام پر مسجد اقصیٰ واقع ہے، جو ان کے منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
تیسرے ہیکل کی تعمیر اور ‘نجات دہندہ’ کا عقیدہ
یہودی عقائد کے مطابق قیامت سے پہلے ان کا نجات دہندہ “مشیح” (Mashiach) ظاہر ہوگا جو انہیں عالمی حکومت دے گا۔
اس نجات دہندہ کی آمد سے پہلے “تیسرے ہیکل” کی تعمیر ضروری سمجھی جاتی ہے۔
ان کے مذہبی رہنما مانتے ہیں کہ یہ ہیکل صرف اسی صورت میں بن سکتا ہے جب مسجد اقصیٰ اور قبت الصخرہ کو گرا دیا جائے۔اسی عقیدے کی بنیاد پر وہ ان مقامات کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔
قبریں، دروازہ اور نجات دہندہ کا ظہور
یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے بادشاہ نما نجات دہندہ ہیکل کے دروازے سے نکلے گا۔
اسی لیے وہ مسجد اقصیٰ کے سامنے قبریں بناتے جا رہے ہیں تاکہ مرنے والے ان کے نجات دہندہ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں۔یہ بات ان کے عقیدے کا حصہ ہے کہ یہ “دروازہ” آخری فتح کی علامت ہوگا۔
یہ سب کچھ مسجد اقصیٰ کے انہدام اور اپنے دجالی نظام کے قیام کے لیے راہ ہموار کرنے کی سازش ہے۔
مسلمانوں کے عقائد میں مسجد اقصیٰ کی اہمیت
• اسلام میں مسجد اقصیٰ کو قبلہ اول اور معراج کی ابتدا کی جگہ قرار دیا گیا ہے۔
• یہ وہی جگہ ہے جہاں سے نبی کریم ﷺ آسمانوں کی سیر کو تشریف لے گئے۔
• قرآن اور احادیث میں اس مقام کو برکت والی زمین قرار دیا گیا ہے۔
• یہ مقام صرف فلسطینیوں کا نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کی عقیدت اور ایمان کا مرکز ہے۔
موجودہ دور کی چالیں اور خاموش امت
• انتہاپسند یہودی گروہ مسلسل اس مقام پر قبضے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
• کھدائیاں، سیاسی حمایت، اور عالمی خاموشی ان کے منصوبے کو تقویت دے رہی ہے۔
• مسلمان دنیا فرقوں اور ذاتی مفادات میں بٹی ہوئی ہے، جس کا فائدہ یہ دشمن اٹھا رہے ہیں۔
• اگر امت نے بیداری نہ دکھائی، تو یہ مسجد اقصیٰ کے خلاف یہودیوں کی چال کامیاب ہو سکتی ہے۔
یہودی مسجد اقصیٰ کو شہید کرنا صرف عقیدے کی بنیاد پر نہیں، بلکہ قیامت سے قبل کی عالمی سازش کا حصہ سمجھتے ہیں۔
ان کے لیے یہ مقام ان کے نجات دہندہ کے ظہور کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔مسلمانوں کے لیے یہ مقام ایمان، قربانی، اور غیرت کا امتحان ہے۔اس مقام کی حفاظت صرف فلسطین کا نہیں، امت محمدیہ کا اجتماعی فرض ہے۔
مسلمان عقیدہ رکھتے ہیں کہ دجال کے ظہور سے پہلے مسجد اقصیٰ کا تحفظ بہت ضروری ہے۔
یہودیوں کے خواب، ہیکل کی تعمیر، اور دجال کا انتظار دنیا کے ایک بڑے مذہبی فتنے کی بنیاد بن چکے ہیں۔
مسلمانوں کے لیے بیت المقدس، تابوتِ سکینہ اور ہیکل کی جگہ صرف ایک زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ ایمان کا حصہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس مقام پر آج بھی دنیا کی سب سے بڑی کشمکش جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امام مہدی علیہ السلام کا ظہور، خلافت اور عدل و انصاف کا قیام