Saturday, April 19, 2025
ہومReligionحضرت فاطمہ بنت محمد رضی اللہ عنہا – سیرتِ مبارکہ، ازدواجی زندگی...

حضرت فاطمہ بنت محمد رضی اللہ عنہا – سیرتِ مبارکہ، ازدواجی زندگی اور وصال

حضرت فاطمہ بنت محمد رضی اللہ عنہا، پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ کی سب سے چھوٹی بیٹی اور اُن کی محبوب ترین اولاد میں سے تھیں۔ آپ کی حیات طیبہ اسلامی تاریخ میں ایک بے مثال کردار کا نمونہ ہے اور آپ کی وفات کا واقعہ اہل بیت اور اسلام کے پیروکاروں کے لیے ایک بڑا صدمہ تھا۔ اس مضمون میں حضرت فاطمہؓ کی زندگی، آپ کے مقام اور اسلام میں آپ کے اثرات کا جائزہ لیں گے۔

ابتدائی زندگی اور پرورش

حضرت فاطمہ بنت محمد رضی اللہ عنہا، جو “سیدۃ النساء العالمین” کے لقب سے جانی جاتی ہیں، 20 جمادی الثانی 5 قبل ہجرت کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔ آپ نبی کریم ﷺ اور حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی سب سے چھوٹی اور چہیتی صاحبزادی تھیں۔ آپ کا اسمِ گرامی “فاطمہ” رکھا گیا، جس کے معنی ہیں “جو دوزخ کی آگ سے محفوظ ہے”۔ آپ کو الزہرا، بتول، سیدہ اور طاہرہ جیسے معزز القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔

آپ نے کم عمری ہی میں اسلام کی خاطر اپنے والدِ محترم نبی کریم ﷺ اور اہلِ خانہ پر ہونے والے ظلم و ستم کا مشاہدہ کیا۔ مکی زندگی میں جب کفارِ قریش نے آپ کے والد کو ایذائیں دیں، تو آپ ان کی دلجوئی کرتی تھیں۔ خاص طور پر شعب ابی طالب کے تین سالہ سخت ترین دور میں آپ نے بےحد صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ اپنی والدہ کی رحلت کے بعد، آپ نبی کریم ﷺ کے لیے مزید فکر مند ہو گئیں اور اسی وجہ سے “ام ابیہا” یعنی “اپنے والد کی ماں” کے لقب سے جانی گئیں۔

حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی زندگی سادگی، پرہیزگاری اور استقامت کا ایک بہترین نمونہ تھی۔ آپ ہمیشہ ضرورت مندوں اور ناداروں کا خیال رکھتیں اور اپنی حیات طیبہ کو دین اسلام کے اصولوں کے مطابق بسر کیا۔ ایک موقع پر، جب چکی پیسنے سے آپ کے ہاتھوں میں تکلیف ہوئی، تو آپ نے رسول اکرم ﷺ سے خادمہ کی درخواست کی۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے آپ کو تسبیح فاطمہ کی تلقین فرمائی، جو 34 مرتبہ “اللہ اکبر”، 33 مرتبہ “الحمدللہ” اور 33 مرتبہ “سبحان اللہ” پر مشتمل ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نکاح

نبی کریم ﷺ نے حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے 2 ہجری میں کروایا، جو اسلام کے عظیم ترین صحابہ میں سے ایک تھے۔اس شادی میں سادگی کو اولین حیثیت دی گئی۔ آپ کا جہیز بھی مختصر مگر بابرکت تھا۔ ازدواجی زندگی محبت، قربانی اور دین کے اصولوں کے مطابق گزری۔ ان کے اس مقدس رشتے کو اسلامی تاریخ میں “اہلِ بیت” کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بطنِ مبارک سے نبی کریم ﷺ کے نواسے حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت محسن (جو بچپن میں انتقال کر گئے)، اور دو بیٹیاں حضرت زینب اور حضرت ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی ان اولاد کو “اہلِ بیت” قرار دیا اور ان سے بےپناہ محبت کا اظہار کیا۔ جنہوں نے بعد میں اسلام کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ اس گھرانے نے اسلامی اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے اپنی زندگی کو سادگی اور ایمان داری کا نمونہ بنا دیا۔

والد کے ساتھ قربت اور محبت

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نبی اکرم ﷺ کی خاص محبت اور شفقت حاصل تھی۔ رسول اللہ ﷺ انہیں اپنی بیٹی کے طور پر ہی نہیں، بلکہ ایک عظیم عورت کے طور پر بھی عزت دیتے تھے۔ جب بھی حضرت فاطمہؓ آپ ﷺ کے پاس آتیں، تو آپ ﷺ ان کی آمد پر کھڑے ہو جاتے اور انہیں اپنی جگہ بٹھاتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ “فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہیں، جس نے انہیں ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔”

حضرت فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
فَاطِمَةُ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الجَنَّةِ
“فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔”
(سنن الترمذی، حدیث: 3873)

فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہیں

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّمَا فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِّنِّي فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي
“بے شک فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہیں، جس نے انہیں ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔”
(صحیح البخاری، حدیث: 3714)

حضرت فاطمہ نبی کریم ﷺ کے سب سے زیادہ قریب

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
“میں نے کسی کو بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ نبی کریم ﷺ سے مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا، چال، گفتار اور نشست و برخاست میں بھی وہ بالکل آپ ﷺ کی طرح تھیں۔”
(سنن ابی داؤد، حدیث: 5217)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“أنتِ أوَّلُ أَهْلِ بَيْتِي لُحُوقًا بِي”
“اے فاطمہ! تم میرے اہلِ بیت میں سب سے پہلے مجھ سے آ ملو گی۔”
(صحیح مسلم، حدیث: 2450)

اہم واقعات

حدیثِ کساء: نبی کریم ﷺ نے حضرت فاطمہ، حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین کو اپنی چادر میں لے کر فرمایا کہ یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔

واقعہ مباہلہ: نجران کے عیسائیوں کے ساتھ ہونے والے مباہلہ میں آپ کو اہلِ بیت کے ساتھ شامل کیا گیا۔

فتح خیبر: جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خیبر فتح کیا، تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ان کی ہمت افزائی کی اور دعائیں دیں۔

فدک کا معاملہ: نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد، فدک کی زمین کے حوالے سے آپ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

وفات اور آخری لمحات

حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے وصال کے حوالے سے مختلف تاریخی روایات ملتی ہیں۔ بعض روایات کے مطابق، آپ کا وصال 3 رمضان 11 ہجری کو ہوا، جو نبی اکرم ﷺ کے وصال کے تقریباً چھ ماہ بعد کا وقت بنتا ہے۔

دیگر تاریخی حوالوں میں مختلف تاریخیں بھی مذکور ہیں، جیسے 3 جمادی الثانی، 13 ربیع الثانی، اور 20 جمادی الثانی 11 ہجری۔ اگرچہ ان تاریخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن 3 رمضان 11 ہجری کی روایت کو عمومی طور پر زیادہ معتبر تسلیم کیا جاتا ہے۔

 اس وقت آپ کی عمر 23 سال تھی اور نبی ﷺ کی وفات کے بعد کے چند ماہ آپ کے لیے بہت تکلیف دہ رہے۔ آپؓ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے وصیت کی کہ ان کی تدفین رات کے وقت اور خاموشی سے کی جائے تاکہ کوئی تکلیف نہ ہو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کی وصیت کے مطابق ان کی آخری رسومات ادا کیں اور انہیں جنت البقیع میں دفن کیا۔

حضرت فاطمہ بنت محمد رضی اللہ عنہا کا مقام اور سبق

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی اسلامی خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپ نے ہر طرح کے حالات میں دین کے اصولوں کو اپنایا اور اسلامی احکامات کی پیروی کرتے ہوئے صبر و شکر کی زندگی گزاری۔ آپؓ کا اخلاق، زہد، اور والدِ محترم ﷺ کے مشن سے محبت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ دین کی خدمت اور تقویٰ کو اپنے طرزِ حیات میں شامل کرنا ضروری ہے۔

Most Popular