Sunday, December 22, 2024
HomeReligionحضرت نوح علیہ السلام کو "آدم ثانی" کیوں کہا جاتا ہے؟

حضرت نوح علیہ السلام کو “آدم ثانی” کیوں کہا جاتا ہے؟

حضرت نوح علیہ السلام کو “آدم ثانی” کا لقب اس وجہ سے دیا جاتا ہے کہ آپ کی قوم کی تباہی کے بعد انسانوں کی نسل کا نیا آغاز ہوا۔ حضرت نوح کا پیغام تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کی عبادت کی جائے۔ حضرت نوح کی قوم میں شرک اور گمراہی کا غلبہ تھا، اور حضرت نوح نے اپنی قوم کو اللہ کی ہدایت کی طرف بلایا۔ حضرت نوح کو “آدم ثانی” کے لقب سے یاد کیا جانا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ آپ کی نسل کے ذریعے انسانوں کا نیا آغاز ہوا۔

حضرت نوح کی قوم اور ان کی گمراہی

حضرت نوح کی قوم میں بدپرستی اور شرک کا غلبہ تھا، اور وہ اللہ کی بجائے مختلف بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ حضرت نوح نے انہیں اللہ کی واحد عبادت کی طرف بلایا اور ان کی اصلاح کے لیے مسلسل کوشش کی۔ قرآن میں حضرت نوح کی قوم کے بارے میں اللہ نے فرمایا:

اور نوح نے کہا: اے میرے رب! میں نے اپنی قوم کو رات دن بلا لیا ہے، مگر میری دعوت نے ان کے ایمان میں اضافہ نہیں کیا۔ (نوح: 5-6)

حضرت نوح نے اپنی قوم کو مخلصانہ طور پر اللہ کی ہدایت دینے کی کوشش کی، مگر ان کے دلوں میں ضد اور تکبر تھا، اور وہ ایمان لانے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کی قوم پر عذاب بھیجا، اور حضرت نوح اور ان کے پیروکاروں کے علاوہ باقی سب کو طوفان میں غرق کر دیا۔


حضرت نوح کو “آدم ثانی” کیوں کہا جاتا ہے؟

حضرت نوح کو “آدم ثانی” کا لقب اس لیے دیا جاتا ہے کیونکہ آپ کی قوم کی تباہی کے بعد انسانوں کی نسل کا آغاز آپ کی نسل سے ہوا۔ حضرت نوح کی قوم کے تباہ ہونے کے بعد اللہ نے حضرت نوح کے ذریعے انسانوں کی نئی نسل کو پیدا کیا، اور اس نسل کا آغاز حضرت نوح سے ہوا۔ قرآن میں اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا

اور نوح کے بعد ہم نے کئی نسلوں کو پیدا کیا۔ (المؤمنون: 30)


حضرت نوح کا طوفان اور اس کا مقصد

حضرت نوح کا طوفان اللہ کی طرف سے ایک عذاب تھا جو حضرت نوح کی قوم پر آیا۔ حضرت نوح کی قوم میں پھیل جانے والی بدعنوانیاں اور گناہ اس عذاب کا سبب بنے۔ اللہ نے حضرت نوح کو کشتی بنانے کا حکم دیا، اور جو لوگ ایمان لائے تھے، ان کو اس کشتی میں سوار کر لیا گیا۔ اس طوفان میں حضرت نوح کے پیروکاروں کے علاوہ باقی سب قوم غرق ہو گئے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اس عذاب کو اس طرح بیان کیا

جب ہمارا حکم آ گیا تو ہم نے نوح کو کہا کہ اپنے خاندان والوں کو کشتی میں سوار کر لو اور ان لوگوں کو بھی جو ایمان لائے ہیں، اور جو لوگ ایمان نہیں لائے، ان کو غرق کر دو۔ (هود: 40)

یہ طوفان اللہ کی قدرت کا مظہر تھا اور اس کے ذریعے حضرت نوح اور ان کے پیروکاروں کو نیا آغاز ملا۔

حضرت نوح کو “آدم ثانی” کا لقب دینا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ کی قوم کی تباہی کے بعد انسانوں کی نسل کا نیا آغاز ہوا۔ حضرت نوح کا طوفان اور اس کے بعد کی نسل کا آغاز انسانوں کے لیے ایک اہم پیغام ہے کہ اللہ کی ہدایت کو قبول کرنا اور اس کے راستے پر چلنا انسان کی فلاح کی ضمانت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، حضرت نوح کا طوفان یہ بھی بتاتا ہے کہ انسانوں کو اللہ کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے اور جو لوگ ہدایت سے منحرف ہوتے ہیں، ان کا انجام دنیا و آخرت میں انتہائی دردناک ہو سکتا ہے۔

قرآن پاک میں “واقعہ افک” کا ذکر بھی آیا ہے، جہاں حضرت عائشہ کی پاکدامنی پر لگائی جانے والی تہمت کو اللہ تعالیٰ نے جھوٹا قرار دیا اور ان کی عزت کی حفاظت کی۔


 

RELATED ARTICLES

Most Popular