Monday, June 16, 2025
ہومReligionامام حسن علیہ السلام کی ولادت باسعادت، فضائل اور شہادت – تاریخ...

امام حسن علیہ السلام کی ولادت باسعادت، فضائل اور شہادت – تاریخ و احادیث

نواسۂ رسول امام حسن علیہ السلام

آج نواسۂ رسول، امام حسن علیہ السلام کا 1442 واں یومِ ولادت ہے۔ آپ 3 ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد تقریباً چھ ماہ مسندِ خلافت پر فائز رہے۔

حسب و نسب

امام حسن ابن علی علیہ السلام اسلام کے دوسرے امام، حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمۃ الزہرا علیہا السلام کے بڑے بیٹے تھے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت خدیجہ علیہا السلام کے بڑے نواسے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک حدیث میں آپ کو جنت کے نوجوانوں کا سردار قرار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود آپ کا نام “حسن” رکھا، جو اس سے قبل کسی کا نہیں تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

 “الحسن و الحسین سیدا شباب أهل الجنة.”

ترجمہ: “حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔”(ترمذی، مسند احمد، ابن ماجہ)

ولادت باسعادت:

آپ 15 رمضان 3 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھرانے میں ایک بڑی خوشی کی علامت تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹوں کے دنیا سے چلے جانے کے بعد مکہ کے مشرکین طعنے دیتے تھے، جس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکوثر نازل کی اور آپ کو کثرتِ اولاد کی خوشخبری دی۔

حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا نے خواب میں دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسمِ مبارک کا ایک ٹکڑا ان کے گھر آ گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تعبیر فرمائی کہ میری بیٹی فاطمہ کے ہاں ایک فرزند پیدا ہوگا جس کی پرورش تم کرو گی۔

ساتویں دن عقیقہ کی رسم ادا کی گئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بحکم خدا آپ کا نام “حسن” رکھا۔ آپ کی ولادت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعا فرمائی کہ

اے اللہ، حسن اور اس کی اولاد کو اپنی حفاظت میں رکھنا۔

تربیت و پرورش:

امام حسن علیہ السلام تقریباً آٹھ سال اپنے نانا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زیرِ سایہ رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ سے بےحد محبت فرماتے تھے۔ متعدد احادیث میں امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کی فضیلت بیان کی گئی ہے، جن میں آپ کو جنت کے نوجوانوں کا سردار قرار دیا گیا ہے۔

فضائل:

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: “خدایا! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت فرما۔” اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو اپنی اولاد میں شمار کیا اور فرمایا کہ حسن اور حسین میرے بیٹے ہیں۔

1. حسن و حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں

  • نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

“الحسن و الحسین سیدا شباب أهل الجنة.”

ترجمہ: “حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔”

(ترمذی، مسند احمد، ابن ماجہ)

2. حسن اور حسین میرے بیٹے ہیں

  • نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

“اللهم إني أحبهما فأحبهما وأحب من يحبهما.”

ترجمہ: “اے اللہ! میں حسن اور حسین سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت فرما اور جو ان سے محبت کرے، ان سے محبت فرما۔”

(بخاری، مسلم)

3. حسن اور حسین نبی کریم ﷺ کے فرزند ہیں

  • نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

“إن ابني هذا سيد، ولعل الله أن يصلح به بين فئتين عظيمتين من المسلمين.”

ترجمہ: “بے شک میرا یہ بیٹا (حسن) سردار ہے، اور امید ہے کہ اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔”

(بخاری)

4. حسن اور حسین، علی اور فاطمہ سب جنت میں ہوں گے

  • نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

“حسن و حسین اور ان کے والدین (حضرت علی اور حضرت فاطمہ) سب جنت میں ہوں گے۔”

(مسند احمد)

5. حسن اور حسین نبی کریم ﷺ کے جسم کا حصہ ہیں

  • نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

“حسن و حسین مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔

(ترمذی، ابن ماجہ)

اخلاق و سیرت:

امام حسن علیہ السلام حلم و بردباری میں بےمثال تھے۔ آپ کے دشمن بھی آپ کے صبر اور تحمل کی گواہی دیتے تھے۔ بنو امیہ کے مخالفین دانستہ طور پر آپ کو اشتعال دلانے کی کوشش کرتے تاکہ کوئی جنگ چھڑ جائے، مگر آپ ہمیشہ صبر اور حکمت سے کام لیتے۔

آپ کی سخاوت اور مہمان نوازی مشہور تھی۔ تین مرتبہ اپنا تمام مال راہِ خدا میں لٹا دیا اور دو مرتبہ اپنا کل اثاثہ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا۔

شہادت:

آپ کے دور میں سیاسی کشمکش اور فتنوں کی وجہ سے فضا نہایت پرآشوب تھی۔ روایات کے مطابق، اشعث بن قیس کی بیٹی جعدہ، جو آپ کی زوجہ تھیں، کو زہر دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔ زہر اتنا تیز تھا کہ آپ کا جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور خون کی قے آنے لگی۔

جب امام حسن علیہ السلام نے محسوس کیا کہ وقتِ رخصت قریب ہے تو اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کو وصیت کی کہ اگر ممکن ہو تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا جائے، لیکن اگر مزاحمت ہو تو کوئی خونریزی نہ ہو، اور انہیں جنت البقیع میں دفن کر دیا جائے۔

تدفین:

28 صفر 50 ہجری کو امام حسن علیہ السلام کا وصال ہوا۔ جب آپ کی تدفین کے لیے روضۂ رسول کی جانب لے جایا گیا تو مدینہ میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا، جس کے باعث آپ کو واپس لایا گیا اور جنت البقیع میں حضرت فاطمہ الزہرا علیہا السلام کی قبر مبارک کے قریب دفن کیا گیا۔

Most Popular