سیٹلائٹ تصاویر نے جنگی دعووں کو بے نقاب کردیا
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی تازہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ چار روزہ جنگ میں کیے گئے بڑے بڑے دعووں کے برعکس، سیٹلائٹ تصاویر ظاہر کرتی ہیں کہ اصل میں جنگی نقصانات کافی محدود رہے۔ رپورٹ کے مطابق اگرچہ دونوں ایٹمی طاقتوں نے ایک دوسرے کے فضائی دفاعی نظام، ائیربیسز اور تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا، لیکن جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں حملے مخصوص اہداف تک ہی محدود رہے۔
پاکستان اور بھارت کے دعوے اور زمینی حقیقت
رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک نے جنگی کارروائیوں کے دوران ایک دوسرے کے اہم فوجی مراکز کو نشانہ بنانے کے بیانات دیے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس نے 5 بھارتی طیاروں کو نشانہ بنایا، جن میں 2 رافیل طیارے بھی شامل ہیں، جب کہ بھارت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ اس نے پاکستان کے بھولاری، سرگودھا اور نور خان ائیربیس پر کامیاب حملے کیے۔ تاہم سیٹلائٹ تصاویر سے واضح ہوتا ہے کہ کئی مقامات پر نقصانات نہ ہونے کے برابر ہیں، یا صرف مخصوص حصوں، جیسے ہینگر یا رن وے، کو نشانہ بنایا گیا۔
جانی نقصان اور متاثرہ تنصیبات
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے 5 فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا، جبکہ پاکستان میں 13 فوجی اہلکار شہید ہوئے۔ امریکی اخبار کے مطابق پاکستانی افواج نے بھارت کی دو درجن سے زائد تنصیبات کو ہدف بنانے کا اعلان کیا، جن میں ائیربیسز بھی شامل تھے، مگر ان حملوں کے واضح شواہد فی الحال سیٹلائٹ تصاویر میں نہیں مل سکے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ حملوں سے قبل اور بعد کی تصاویر کا موازنہ کر کے کچھ جگہوں پر جزوی نقصان ضرور نظر آتا ہے، جیسے نور خان ائیربیس یا بھولاری ائیربیس کا ہینگر۔
اخبار کی تنقید: بیانات اور ثبوتوں میں تضاد
نیویارک ٹائمز نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اگرچہ پاکستانی میڈیا اور عوامی بیانات میں بعض حملوں کو “تباہ کن” کہا گیا، لیکن سیٹلائٹ ڈیٹا میں ان کی مکمل توثیق نہیں کی جا سکی۔ مثلاً اُودھم پور ائیربیس پر حملے کی پاکستانی دعویٰ کی تائید بھارتی خاندان کی تصدیق سے ہوئی، جس میں ایک فوجی کی ہلاکت کی خبر تھی، لیکن سیٹلائٹ تصویر میں وہ بیس محفوظ دکھائی دے رہا ہے۔
عام شہریوں کے نقصانات پر خاموشی
رپورٹ میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ بھارت کی جانب سے پاکستان میں مساجد، گھروں اور عام شہری آبادی پر حملوں کے حوالے سے جو الزامات لگے، ان پر نہ تو کوئی سیٹلائٹ تجزیہ کیا گیا اور نہ ہی امریکی اخبار نے ان کی تصدیق یا تردید کی۔
نتیجہ: جنگی بیانات سے بڑھ کر زمینی حقائق کو دیکھنے کی ضرورت
نیویارک ٹائمز کی یہ رپورٹ اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ میڈیا، سرکاری بیانات اور حقیقت میں بڑا فرق ہو سکتا ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک نے جنگ کو بڑی کامیابیوں کے طور پر پیش کیا، لیکن تصاویر اور زمینی شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ نقصان اتنا وسیع نہیں جتنا ظاہر کیا گیا۔ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات کی شفاف رپورٹنگ اور سچائی تک رسائی کے لیے سیٹلائٹ تجزیہ ایک مؤثر ذریعہ ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:تنازع کشمیر پر ہمارا مؤقف پہلے کی طرح واضح ہے، سندھ طاس معاہدہ بھی معطل رہیگا: بھارت