مشال خان کا قتل کیس: پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی اور عدالتی چیلنجز
مشال خان کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر مردان سے تھا۔ وہ 1994ء میں پیدا ہوا اور عبد الولی خان یونیورسٹی مردان میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ وہ ایک ذہین نوجوان تھا جسے اپنے علم اور ثقافت سے محبت تھی۔ مشال خان کا خواب تھا کہ وہ تعلیم کے ذریعے اپنے معاشرے کی حالت بہتر کرے گا اور لوگوں میں شعور پیدا کرے گا۔
13 اپریل 2017ء کو مشال خان کو اپنے ہی یونیورسٹی کی حدود میں توہین مذہب کے الزام میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے فیس بک پر مذہب سے متعلق توہین آمیز مواد پوسٹ کیا تھا، تاہم پولیس تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ اس الزام کے حق میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا۔ مشال خان کے دوستوں اور کلاس فیلوز نے یہ بیان دیا تھا کہ مشال ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھا اور اس کے خلاف حملہ اُس کی یونیورسٹی کی انتظامیہ کے خلاف تنقید کی وجہ سے کیا گیا تھا۔
مشال خان کی موت کے بعد پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔ اس واقعہ نے مذہبی انتہاپسندی اور تشدد کے خطرات کو اجاگر کیا اور انصاف کے نظام پر سوالات اٹھا دیے تھے۔ پولیس نے اس قتل کے مقدمے میں 45 افراد کو گرفتار کیا تھا اور انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا تھا۔ اس سانحے نے پاکستانی معاشرتی اور سیاسی حلقوں میں شدید ردعمل پیدا کیا اور یہ واقعہ تاریخ میں ایک سنگین باب کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
مشال خان کا قتل پاکستانی معاشرت میں توہین مذہب کے الزام میں تشدد کی سنگینی کو سامنے لے آیا اور اس نے اس بات کی اہمیت پر زور دیا کہ معاشرتی تفرقات اور نفرت کی بجائے ہمیں انسانیت، انصاف اور محبت کی روشنی اپنانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: دفعہ 295A اور 295C کیا ہیں، کتنے لوگ اس کی زد میں آ چکے ہیں