مسجد الاقصیٰ اور یروشلم کی جنگ
یروشلم دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے اور تین بڑے مذاہب: اسلام، عیسائیت، اور یہودیت کے لیے مقدس ہے۔ اس شہر کی تاریخی اور مذہبی حیثیت نے اسے ہمیشہ تنازعات کا مرکز بنایا ہے۔ مسلمانوں کے لیے یروشلم اور مسجد الاقصیٰ کا مقام خاص طور پر اہم ہے کیونکہ یہ اسلامی تاریخ، روحانیت اور عبادت سے جڑا ہوا ہے۔
یروشلم کی ابتدائی تاریخ
یروشلم کی بنیاد تقریباً چار ہزار سال قبل رکھی گئی تھی، اور یہ شہر تاریخ کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ ابتدا میں یہ کنعانیوں کا مرکز تھا، جو قدیم مشرق وسطیٰ میں آباد ایک مشہور تہذیب تھی۔ کنعانی تہذیب کے آثار اس شہر کی تاریخی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔
اس کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام نے یروشلم کو فتح کیا اور اسے اسرائیل کی ریاست کا دارالحکومت بنایا۔ یہ وہ وقت تھا جب یروشلم نے ایک روحانی اور سیاسی مرکز کی حیثیت اختیار کی۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے یروشلم میں ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی، جو یہودی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ ہیکل سلیمانی نہ صرف ایک عبادت گاہ تھی بلکہ اسے علم و حکمت اور شریعت کے مرکز کے طور پر بھی دیکھا جاتا تھا۔
اسلامی روایات کے مطابق، حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس عبادت گاہ کی تعمیر اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت کی اور یہ مقام توحید کی علامت تھا۔ قرآن مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا ذکر آتا ہے اور ان کی حکومت کو اللہ تعالیٰ کا انعام قرار دیا گیا ہے
اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطا کیا۔ کیا ہی اچھا بندہ تھا، بے شک وہ رجوع کرنے والا تھا۔“ (سورۃ ص: 30)“
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اسلامی عقائد میں مسجد الاقصیٰ کی اہمیت
اسلام میں مسجد الاقصیٰ کو تین اہم مساجد میں شامل کیا گیا ہے جن کی زیارت کی اجازت دی گئی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا
“تین مساجد کے لیے سفر کیا جا سکتا ہے: مسجد الحرام، میری یہ مسجد (مسجد نبوی) اور مسجد الاقصیٰ۔”
(صحیح بخاری: 1189)
یہ حدیث اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ مسجد الاقصیٰ اسلامی مساجد کا حصہ ہے اور اس کا مرتبہ مسلمانوں کے لیے مکہ اور مدینہ کی مقدس مساجد کے بعد آتا ہے۔
قبلہ اول ہونے کا اعزاز
مسجد الاقصیٰ اسلام کا پہلا قبلہ تھا۔ مسلمانوں نے ہجرت کے بعد تقریباً 16 سے 17 ماہ تک اسی طرف رخ کر کے نماز ادا کی۔ بعد میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے قبلہ خانہ کعبہ کی طرف تبدیل کر دیا گیا۔ قرآن مجید میں اس تبدیلی کا ذکر ہے
تو ہم ضرور تمہیں اس قبلے کی طرف پھیر دیں گے جسے تم پسند کرتے ہو۔ پس اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف پھیر لو۔ (سورۃ البقرہ: 144)
اسلامی دور اور مسجد الاقصیٰ
اسلامی تاریخ میں یروشلم کا ذکر اس وقت ہوتا ہے جب نبی اکرم ﷺ نے معراج کا سفر کیا۔ اس واقعے کا ذکر قرآن میں یوں آتا ہے
پاک ہے وہ جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک لے گیا۔“ (الاسراء: 1)”
یہ آیت مسجد الاقصیٰ کی روحانی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ مسجد ایک مقدس مقام ہے، جہاں عبادت کا ثواب مکہ اور مدینہ کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
صلیبی جنگیں
مسلمانوں نے یروشلم کو 637 عیسوی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں فتح کیا۔ یہ فتح اسلامی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے، کیونکہ اس وقت یروشلم بازنطینی سلطنت کے زیرِ انتظام تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جانب سے فتح کے بعد اس شہر کو ایک مثالی اسلامی ریاست کے طور پر تشکیل دیا گیا، جہاں تمام مذاہب کے لوگوں کو ان کے عقائد کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی دی گئی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یروشلم کے لوگوں سے ایک معاہدہ کیا جسے “عہدہ عمریہ” کہا جاتا ہے، جس میں غیر مسلموں کو ان کے حقوق کی ضمانت دی گئی اور مذہبی رواداری کا بہترین نمونہ پیش کیا گیا
جدید دور اور اسرائیل کا قیام
بیسویں (20)صدی میں یروشلم ایک بار پھر تنازعے کا شکار ہوا۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد فلسطینیوں کے علاقوں پر قبضہ شروع ہوا۔ یروشلم کو اسرائیل نے اپنا دارالحکومت قرار دیا، جبکہ فلسطینیوں نے مشرقی یروشلم کو اپنی ریاست کا حصہ مانا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مسجد الاقصیٰ اور1967 کی جنگ
جسے“چھ روزہ جنگ” کہا جاتا ہے، مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ یہ جنگ 5 جون سے 10 جون تک جاری رہی اور اسرائیل نے اس میں عرب ممالک مصر، شام، اور اردن کے خلاف فیصلہ کن کامیابی حاصل کی۔ اس جنگ کے دوران اسرائیل نے یروشلم کے مشرقی حصے پر قبضہ کیا، جو مسلمانوں کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہیں مسجد الاقصیٰ واقع ہے۔
جنگ کے پس منظر میں عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان شدید کشیدگی موجود تھی۔ مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے اسرائیل کے خلاف جارحانہ موقف اپنایا اور نہر سویز کو بند کر دیا۔ اسرائیل نے اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے عرب ممالک پر حملہ کر دیا اور چند دنوں میں ہی اردن کے زیرِ انتظام مغربی کنارے اور یروشلم کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا۔
اسرائیلی فوج نے مشرقی یروشلم میں داخل ہو کر مسجد الاقصیٰ کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ یہاں اسرائیلی فوج نے مسجد کے احاطے پر اپنا پرچم لہرا دیا، لیکن عالمی دباؤ کے تحت اسے ہٹانا پڑا۔ اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضے کے بعد فلسطینیوں کی مسجد الاقصیٰ تک رسائی کو محدود کر دیا۔ کئی قوانین اور پابندیاں نافذ کی گئیں، جن کے تحت فلسطینیوں کو مسجد میں داخل ہونے کے لیے خصوصی اجازت نامے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان پابندیوں نے نہ صرف فلسطینی عوام کی عبادات کو متاثر کیا بلکہ ان کی مذہبی آزادی کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔
فلسطینی مزاحمت اور عالمی ردعمل
مسجد الاقصیٰ اور یروشلم کی جنگ نے فلسطینی عوام کو مزاحمت پر مجبور کر دیا۔ فلسطینیوں نے کئی تحریکیں چلائیں، جن میں 1987 کی انتفاضہ خاص طور پر اہم ہے۔ اس تحریک کا مقصد اسرائیلی قبضے کو ختم کرنا تھا۔ اقوام متحدہ اور کئی ممالک نے اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی قرار دیا، لیکن اسرائیل نے عالمی دباؤ کے باوجود اپنی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
موجودہ صورتحال
آج بھی مسجد الاقصیٰ اور یروشلم کی جنگ ایک عالمی تنازعے کا مرکز ہے۔ اسرائیل نے یروشلم کے مشرقی حصے میں نئی بستیاں قائم کر لی ہیں، جس کی وجہ سے فلسطینیوں کی زمین مزید سکڑ رہی ہے۔ فلسطینی عوام مسجد الاقصیٰ کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، جبکہ اسرائیل اپنی بالادستی برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔