بجلی کے بلوں میں غیر مساوات عوامی مشکلات اور حکومتی چیلنج
پاکستان میں بجلی بلوں کا تضاد انصاف کا سوال
پاکستان میں بجلی کے بلوں کا نظام عوام کے لیے کئی سوالات کھڑے کرتا ہے۔ خاص طور پر کم اجرت والے افراد کے لیے یہ نظام کس حد تک منصفانہ ہے؟ خالد انعم کی بات ہمیں اس غیر مساوی تقسیم پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
کم اجرت والے افراد پر بوجھ
ایک مزدور جو روزانہ 900 روپے کی دیہاڑی پر کام کرتا ہے، اُس کے بجلی کے بل کا بوجھ 10 ہزار روپے تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ صورت حال نہ صرف معیشت پر سوالیہ نشان چھوڑتی ہے بلکہ حکومتی ترجیحات پر بھی سوال اٹھاتی ہے۔
مراعات یافتہ طبقے کے لیے سہولتیں
دوسری طرف، وہ افراد جو 15 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں، ان کے لیے 2000 یونٹس تک بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے۔ یہ مراعات یافتہ طبقہ بجلی کی سہولتوں سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے، جو کہ عام عوام کے لیے ناقابلِ فہم ہے۔
یہ بھی پڑھیں:لوگوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالنا آزادی اظہار رائے نہیں: انوار الحق کاکڑ
بجلی کے نظام میں عدم مساوات
یہ واضح ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں یہ فرق نظام میں موجود غیر مساوات کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایک طرف مزدور اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہے، اور دوسری طرف مراعات یافتہ طبقہ مفت سہولیات سے مستفید ہو رہا ہے۔
حل کی ضرورت
ملک میں ایسے نظام کی ضرورت ہے جو مساوات اور انصاف پر مبنی ہو۔ بجلی کے بلوں کا نظام عام عوام کی آمدنی کے مطابق ہونا چاہیے تاکہ کوئی بھی طبقہ زیادتی کا شکار نہ ہو۔
نتیجہ
پاکستان کے بجلی کے بلوں کا یہ تضاد حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے۔ خالد انعم جیسے عوامی شخصیات کے خیالات ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا ہم واقعی ایک منصفانہ معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں؟