پانی زندگی کی بقاء کا بنیادی ذریعہ ہے۔ زمین پر موجود ہر جاندار کی سانس، بقا، اور ترقی کا دارومدار پانی پر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں پانی کی قلت، جو کہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، پانی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی کمی کے سنگین مسئلے کا سامنا کر رہا ہے۔
دنیا کے وہ ممالک جہاں پانی قدرتی طور پر کم میسر ہے، وہاں بھی اسے بچانے اور ذخیرہ کرنے کو اولین قومی ترجیح حاصل ہے۔ منگولیا، افریقہ جیسے خشک خطے تک ہواؤں اور نمی سے پانی کشید کرنے پر تحقیق کر رہے ہیں، جبکہ ہمارے ملک میں جہاں برف پوش پہاڑ، گلیشیئرز اور قدرتی دریا موجود ہیں، وہیں ہر سال کا بڑا حصہ پانی کی قلت کی شکایتوں میں گزرتا ہے۔ بارشیں صرف دو ماہ برس کر جاتی ہیں اور باقی سال پانی کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔
ہمارے دریاؤں کا دارومدار موسمی حالات پر ہے۔ جب گلیشیئرز پگھلتے ہیں یا بارشیں ہوتی ہیں تو دریا بھر جاتے ہیں، ورنہ ان میں پانی کی روانی کم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سردیوں میں نہریں خشک ہو جاتی ہیں۔ جب تک ہم یہ حقیقت تسلیم نہیں کرتے اور پانی ذخیرہ کرنے کے لیے پائیدار اقدامات نہیں کرتے، مسئلہ بڑھتا جائے گا۔
پانی کا ضیاع: ہماری روزمرہ کی کوتاہیاں
1. ہماری قوم عموماً روزمرہ زندگی میں پانی کے استعمال میں حد سے تجاوز کرتی ہے:
2. جہاں ترقی یافتہ قومیں دانت صاف کرنے میں ایک گلاس پانی استعمال کرتی ہیں، وہاں ہم کئی لیٹر پانی بہا دیتے ہیں۔
3. ماضی میں ایک لوٹے سے وضو کرنے کا رواج تھا، مگر اب ایک وقت کے وضو میں ڈرم بھر پانی ضائع کیا جاتا ہے۔
4. کار سروس اسٹیشنوں پر سینکڑوں لیٹر پانی ایک گاڑی دھونے میں ضائع کر دیا جاتا ہے۔
اس بے احتیاطی کے سبب زیرزمین پانی کی سطح تشویشناک حد تک نیچے جا رہی ہے۔ بڑے شہروں جیسے لاہور، کراچی، فیصل آباد اور ملتان میں ہر سال پانی کی سطح ایک سے ڈیڑھ میٹر نیچے جا رہی ہے۔ صرف لاہور میں روزانہ 1.2 بلین لیٹر پانی نکالا جاتا ہے، لیکن واپسی یعنی Recharge نہ ہونے کے برابر ہے۔
سیلاب: نعمت یا زحمت؟
سالانہ برسات کے دوران آنے والے سیلاب نہ صرف قیمتی جان و مال کا نقصان کرتے ہیں، بلکہ وہ پانی جو ہمارے مستقبل کو محفوظ کر سکتا ہے، بغیر ذخیرہ کے ضائع ہو کر سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ہم اگلے دس ماہ پانی کی قلت کا رونا روتے ہیں اور الزام دوسروں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں اوسطاً 250 سے 500 ملی میٹر سالانہ بارش ہوتی ہے، لیکن ہم صرف 10 فیصد سے بھی کم پانی محفوظ کر پاتے ہیں، جبکہ برسات کا 90 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے۔
مستقبل کا خطرہ
ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ (WRI) کی رپورٹ 2023ء کے مطابق اگر یہی روش جاری رہی تو 2040ء تک پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہو جائے گا جہاں پانی کی قلت سب سے زیادہ ہوگی۔
قومی سطح پر حل کے قابلِ عمل اقدامات
1. ڈیمز اور آبی ذخائر کی تعمیر
• پہاڑی علاقوں میں چھوٹے و درمیانے درجے کے ڈیمز تعمیر کیے جائیں۔
• میدانی علاقوں میں دریا کنارے جھیلیں اور تالاب بنائے جائیں۔
• دیہات میں بارش کے پانی سے تالاب بنانے کی روایت کو جدید شکل دی جائے۔
2. پانی چوس کنوؤں (Recharge Wells) کا فروغ
• مساجد میں وضو کا پانی زمین میں جذب کرنے کے لیے پانی چوس کنوئیں بنائے جائیں۔
• سروس اسٹیشنز کو قانوناً پابند کیا جائے کہ وہ پانی واپس زمین میں پہنچائیں۔
• پارکوں، گلیوں، نشیبی علاقوں، اسکولوں، کالجوں، صنعتی زونز، شاپنگ مالز، اور مارکیٹوں میں ریچارج سسٹم قائم کیا جائے۔
• ٹیوب ویل استعمال کرنے والے کسان بھی اپنی زمینوں کے کنارے کنوئیں بنائیں۔
• نئی ہاؤسنگ اسکیمز میں ان کنوؤں کا نقشہ لازمی ہو۔
3. عوامی شعور اور تربیتی مہم
• میڈیا، مساجد، اسکول، اور سوشل میڈیا کے ذریعے پانی بچانے کا پیغام عام کیا جائے۔
• مقامی حکومتیں اور عام شہری مل کر اپنے علاقوں میں پانی چوس کنوئیں بنائیں۔
• ماہرین کی ٹیمیں تشکیل دے کر عملی تربیت دی جائے، اور دیہی و شہری علاقوں میں رہنمائی فراہم کی جائے۔
• نوجوانوں کو ’پانی بچاؤ مہم‘ کا حصہ بنایا جائے۔
4. زرعی اصلاحات اور جدید طرز آبپاشی
• ڈِرِپ اریگیشن اور سپرنکلر سسٹم کو فروغ دیا جائے۔
• زرعی ٹیوب ویلز کے استعمال کو ضابطے میں لایا جائے۔
• کسانوں کو پانی کے مؤثر استعمال کی تربیت دی جائے۔
فیصلہ کن لمحہ
پانی کا بحران محض ماحولیاتی مسئلہ نہیں، بلکہ قومی سلامتی کا خطرہ بھی ہے۔ اگر آج ہم نے اس مسئلے کا حل نہ نکالا تو آنے والے برسوں میں یہ بحران ہماری معیشت، زراعت اور بقاء کو داؤ پر لگا دے گا۔
اب وقت ہے کہ ہم صرف شکرگزاری پر اکتفا کرنے کے بجائے عملی اقدامات کریں۔ اگر ہر شہر میں پانچ سالہ منصوبے کے تحت 1000 پانی چوس کنوئیں بنائے جائیں تو نہ صرف زیر زمین پانی کی سطح بہتر ہو سکتی ہے بلکہ سیلاب کی تباہ کاریوں میں بھی کمی لائی جا سکتی ہے۔
اگر آپ اس فکر سے متفق ہیں تو اس پیغام کو عام کریں، لکھیں، شیئر کریں، اور اپنے محلے کی مسجد، اسکول یا دفتر میں پہل کریں۔ اگر آپ خود نہیں لکھ سکتے تو یہی تحریر بطور پوسٹ استعمال کریں اور قومی ذمہ داری کا ثبوت دیں۔
(تحریر: عبدالستار منہاجین)
یہ بھی پڑھیں:جیف بیزوس کی شادی کی تقریبات کا آغاز، اس پُرتعیش شادی پر کتنا خرچہ ہوگا؟