Saturday, April 19, 2025
ہومReligionشب برأت: شعبان کی 15 ویں رات کی فضیلت

شب برأت: شعبان کی 15 ویں رات کی فضیلت

شب برأت شعبان کی 15 ویں رات کی فضیلت

شبِ برات کی اہمیت اور پس منظر

شبِ برات، جو شعبان کی پندرھویں رات کہلاتی ہے، قرآن مجید میں ’’لیلۃ مبارکہ‘‘ اور احادیث نبویہ میں ’’لیلۃ النصف من شعبان‘‘ کے ناموں سے موسوم ہے۔ اسے ’’براۃ‘‘ (نجات) کی رات اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ بے انتہا رحمت اور فضل کے ساتھ بیشمار گناہگاروں کو جہنم کے عذاب سے رہائی عطا فرماتا ہے۔

اس رات کی فضیلت پر مبنی متعدد احادیث مبارکہ مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت کی گئی ہیں، جن میں حضرت ابوبکر صدیق، حضرت علی المرتضیٰ، اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابو ثعلبہ الخشنی، حضرت عوف بن مالک، حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت ابو امامہ الباہلی اور حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہم اجمعین جیسی جلیل القدر ہستیاں شامل ہیں۔

سلف صالحین اور اکابر علما کے معمولات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس رات کو عبادت، ذکر اور دینی مجالس کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ اس لیے اسے بدعت کہہ دینا خلافِ تعلیماتِ نبوی ہے، خصوصاً جب امتِ مسلمہ شروع سے اس رات کے فضائل کو تسلیم کرتی چلی آرہی ہے۔

ائمہ حدیث اور شبِ برات

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین اور ائمہ حدیث نے بھی اس رات کی اہمیت بیان کی۔ ائمہ صحاح ستہ سمیت تمام بڑے محدثین نے اپنی کتابوں میں ’’بَابُ مَا جَائَ فِی لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَان‘‘ کے عنوان سے باب قائم کر کے اس موضوع پر احادیث کو اکٹھا کیا۔ جب ائمہ حدیث کسی موضوع پر باب قائم کر کے اس کے تحت متعدد احادیث نقل کرتے ہیں تو یہ صرف کتاب میں باب بنانے کے لیے نہیں بلکہ ان کی عقیدت و عمل کی غمازی کرتا ہے۔

امام ترمذی، امام نسائی، امام ابن ماجہ، امام احمد بن حنبل، امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام ابن ابی شیبہ، امام بزار، امام طبرانی، امام بیہقی اور دیگر محدثین کی کتب اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ حضرات بھی اس رات کی فضیلت کے قائل اور عامل تھے۔ وہ اس رات خصوصی طور پر جاگتے، روزہ رکھتے، قبرستان جاتے اور امتِ مسلمہ کی مغفرت کے لیے دُعا مانگتے۔


شبِ برات کی فضیلت احادیث مبارکہ کی روشنی میں

یہاں چند وہ احادیث مبارکہ درج کی جارہی ہیں جو اس رات کی فضیلت پر صریح طور پر دلالت کرتی ہیں۔ ان کا اصل متن اور ترجمہ جوں کا توں برقرار رکھا گیا ہے۔


1۔ حدیثِ مبارکہ بحوالہ مسند بزار

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا کَانَ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ یَنْزِلُ اللهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی إِلَی سَمَاءِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِعِبَادِهِ إِلاَّ مَا کَانَ مِنْ مُشْرِکٍ أَوْ مُشَاحِنٍ لِأَخِیْهِ.

’’جب ماہِ شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے لائق) نزول فرماتا ہے، سو وہ مشرک اور اپنے بھائی سے عداوت رکھنے والے کے سوا اپنے سارے بندوں کی بخشش فرما دیتا ہے۔‘‘

(المسند للبزار، 1/206، رقم/80)

امام بزار اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اگرچہ اسناد میں کچھ کلام ہو تو بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عظمت اس کو مزید تقویت بخشتی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اہل علم ابتدا ہی سے اس رات کی فضیلت کے قائل رہے ہیں۔


2۔ حدیثِ مبارکہ بحوالہ سنن ابن ماجہ

حضرت علی کرم اللہ وجہہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا کَانَتْ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُوْمُوْا لَیْلَهَا وَصُوْمُوْا نَهَارَهَا فَإِنَّ اللهَ یَنْزِلُ فِیْهَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ إِلَی سَمَاءِ الدُّنْیَا فَیَقُوْلُ: أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَهُ؟ أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ؟ أَلَا مُبْتَلًی فَأُعَافِیَهُ؟ أَلَا کَذَا؟ أَلَا کَذَا؟ حَتَّی یَطْلُعَ الْفَجْرُ.

’’جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو اس کی رات کو قیام کیا کرو اور اس کے دن روزہ رکھا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ اس رات (اپنی شان کے مطابق) غروبِ آفتاب کے وقت آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے: کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں؟ کوئی رزق کا طلبگار ہے کہ میں اسے رزق دوں؟ کوئی بیمار ہے کہ میں اسے شفا عطا کروں؟ کیا کوئی ایسا نہیں؟ کیا کوئی ویسا نہیں؟ یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی ہے۔‘‘

(ابن ماجہ، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیها، باب ماجاء فی لیلة النصف من شعبان، 1/444، رقم: 1388)


3۔ حدیثِ مبارکہ بحوالہ مسند احمد بن حنبل

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب گاہ میں نہ پایا تو تلاش کرتے ہوئے جنت البقیع پہنچیں، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں خوف ہے کہ اللہ اور اس کے رسول تمہارے ساتھ نا انصافی کریں گے؟ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ انہیں خیال گزرا تھا کہ شاید آپ کسی اور زوجہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ یَنْزِلُ لَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا، فَیَغْفِرُ لِأَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ.

’’اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات کو (اپنی شان کے لائق) آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔‘‘

(أحمد بن حنبل، المسند، 6/238، رقم/26060)


4۔ حدیثِ مبارکہ بحوالہ مسند احمد

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

یَطَّلِعُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلٰی خَلْقِهٖ لَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِعِبَادِهٖ إِلَّا لِاثْنَیْنِ: مُشَاحِنٍ، وَقَاتِلِ نَفْسٍ.

’’شبِ برأت کو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر نظر فرماتا ہے، سو وہ اپنے دو بندوں کے علاوہ سب کو بخش دیتا ہے: ایک وہ جو سخت کینہ رکھتا ہے اور دوسرا جو کسی کا قاتل ہو۔‘‘

(مسند احمد بن حنبل، 2/176، رقم/6642)


5۔ حدیثِ مبارکہ بحوالہ طبرانی

حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

یَطَّلِعُ اللهُ عَلٰی عِبَادِهٖ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِلْمُؤْمِنِینَ وَیُمْهِلُ الْکَافِرِینَ، وَیَدَعُ أَهْلَ الْحِقْدِ بِحِقْدِهِمْ حَتّٰی یَدَعُوْهُ.

’’اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں شب کو اپنے بندوں پر نظرِ رحمت فرماتا ہے، پس مؤمنوں کو بخش دیتا ہے اور کافروں کو ڈھیل دے دیتا ہے، جبکہ دلوں میں بغض رکھنے والوں کو ان کے بغض سمیت چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی اس خصلت کو ترک کر دیں۔‘‘

(طبرانی، المعجم الکبیر، 22/223-224، رقم/590، 593)


6۔ حدیثِ مبارکہ بحوالہ شعب الایمان

حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا کَانَ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَإِذَا مُنَادٍ: هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأغْفِرَ لَهُ؟ هَلْ مِنْ سَائِلٍ فَأعْطِیَهُ؟ فَـلَا یَسْألُ أحَدٌ إِلَّا أعْطِیَ إِلَّا زَانِیَۃٌ بِفَرْجِهَا أوْ مُشْرِکٌ.

’’جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو ایک ندا دینے والا آواز دیتا ہے: کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے معاف کر دوں؟ کوئی مانگنے والا ہے کہ میں اسے عطا کروں؟ تو (اس رات) زانیہ اور مشرک کے سوا ہر مانگنے والے کو دیا جاتا ہے۔‘‘

(بیہقی، شعب الایمان، 3/383، رقم/3836)


7۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول

خَمْسُ لَیَالٍ لَا یُرَدُّ فِیهِنَّ الدُّعَائُ: لَیْلَةُ الْجُمُعَۃِ، وَأَوَّلُ لَیْلَۃٍ مِنْ رَجَبٍ، وَلَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَلَیْلَةُ الْعِیْدِ وَلَیْلَةُ النَّحْرِ.

’’پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں ہوتی: جمعہ کی رات، رجب کی پہلی رات، شعبان کی پندرہویں رات، عید الفطر کی رات اور عید الاضحی کی رات۔‘‘

(بیهقی، شعب الإیمان، 3/342، رقم/3713)


ائمہ و محدثین کے اقوال

ابن تیمیہؒ کا بیان

امام ابن تیمیہؒ (728ھ) نے اپنی کتب ’’مجموع فتاویٰ‘‘ اور ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ میں شبِ برات کے بارے میں فرمایا:

وَأَمَّا لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقَدْ رُوِيَ فِي فَضْلِهَا أَحَادِیْثُ وَآثَارٌ وَنُقِلَ عَنْ طَائِفَةٍ مِنَ السَّلَفِ أَنَّهُمْ کَانُوْا یُصَلُّوْنَ فِیْهَا.
(ابن تیمیة، مجموع فتاویٰ، 23/132)

’’شعبان کی پندرہویں رات کی فضیلت میں بہت سی احادیث اور آثار وارد ہوئے ہیں اور یہ بھی منقول ہے کہ سلف صالحین میں سے ایک جماعت اس رات عبادت کیا کرتی تھی۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے مزید فرمایا:

إِذَا صَلَّی الإِنْسَانُ لَیْلَةَ النِّصْفِ وَحْدَهٗ أَوْ فِي جَمَاعَةٍ خَاصَّةٍ کَمَا کَانَ یَفْعَلُ طَوَائِفُ مِنَ السَّلَفِ فَھُوَ أَحْسَنُ.
(ابن تیمیة، مجموع فتاوی، 23/131)

’’اگر کوئی شخص شبِ برات کو اکیلے یا چند لوگوں کے ساتھ مل کر عبادت کرے، جیسا کہ سلف میں سے بعض گروہ کرتے تھے، تو یہ بہت ہی عمدہ عمل ہے۔‘‘

علامہ ابن رجب حنبلیؒ کا قول

علامہ ابن رجب حنبلیؒ (795ھ) لکھتے ہیں کہ اہل شام میں بعض جلیل القدر تابعین مثلاً خالد بن معدان، مکحول، لقمان بن عامر وغیرہ اس رات کو خوب عبادت میں گزارتے تھے۔ لوگوں نے اسی کے اثر سے شب برأت کی فضیلت جان لی اور اس رات کی تعظیم و عبادت کرنے لگے۔
(ابن رجب، لطائف المعارف، ص 137)


شبِ برأت کے معمولات و وظائف

سورۃ یٰسین کی تلاوت —— 3 مرتبہ

سورۃ الدخان کی تلاوت

3 مرتبہ (یہ اس سورۃ کی پہلی 78 آیات کی 30 بار تلاوت کریں)

آیتِ کریمہ (دعائے یونسؑ) کا ورد 100 مرتبہ

لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ

استغفار (کم از کم 100 مرتبہ)

أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ العَظِيمَ الَّذِي لاَ إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الحَيُّ القَيُّومُ وَأَتُوبُ إِلَيهِ

دُرود پاک (کم از کم 100 مرتبہ)

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلٰى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلِّم

صلوٰة التسبیح ادا کریں

8 نوافل قیام اللیل کی نیت سے ادا کریں

ہر رکعت میں الفاتحہ کے بعد ایک مرتبہ سورۃ القدر، تین مرتبہ سورۃ الاخلاص، اور سورۃ الفلق و سورۃ الناس کی تلاوت کریں

اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ العَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي

حلقہ ذکر و محفل نعت کا اہتمام کریں


خلاصہ اور عملی رہنمائی

  1. شبِ برات کی فضیلت اور اس کا ثبوت

  • بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کی فضیلت پر احادیث روایت کیں، جن کی مجموعی تعداد تواتر کے قریب پہنچتی ہے۔
  • اگر بعض اسناد میں ضعف بھی ہو تو محدثین کا اصول ہے کہ مختلف سندوں سے روایت ہونے سے حدیث کو تقویت ملتی ہے، خاص طور پر فضائلِ اعمال میں ضعیف روایت بھی مقبول ہوتی ہے۔
  1. انفرادی اور اجتماعی عبادت

  • شبِ برات میں اکیلے عبادت کرنا، تلاوتِ قرآن، ذکر و اذکار، نوافل اور دعائیں مانگنا بہترین عمل ہے۔
  • اجتماعی عبادت کا بھی ثبوت سلف صالحین کے ہاں موجود ہے۔ اس میں دینی ماحول پیدا ہوتا ہے اور عبادت میں دل جمعی میسر آتی ہے۔
  • اجتماعی عبادت کسی مستند عالم یا راہِ سلوک کے شناسا کی سربراہی میں ہو تو زیادہ بہتر ہے، تاکہ عملی اور روحانی تربیت ہو سکے۔
  1. حاصلِ کلام

  • اس رات کا مقصد اللہ تعالیٰ کے ساتھ بگڑا ہوا تعلق بحال کرنا اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنا ہے۔
  • رات میں قیام، عبادت اور دعا کے ذریعے بندہ اپنے خالق کے سامنے عجز و انکسار کا اظہار کر سکتا ہے۔
  • امت کے جلیل القدر ائمہ و محدثین اور فقہا نے اس رات کی قدر و منزلت کو تسلیم کیا ہے، لہٰذا اسے بدعت کہنا احادیثِ نبویہ اور سلف صالحین کے عمل سے ناواقفیت کی علامت ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس مقدس رات سے بھرپور فیض حاصل کرنے اور اپنی خطاؤں کی معافی مانگ کر قربِ الٰہی پانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

Most Popular