Monday, June 16, 2025
ہومArticlesٹائٹینک، ایک خواب جو سمندر کی گہرائیوں میں دفن ہو گیا

ٹائٹینک، ایک خواب جو سمندر کی گہرائیوں میں دفن ہو گیا

1907 کی ایک ٹھنڈی شام تھی، جب وائٹ اسٹار لائن کے چیئرمین جے بروس اسمی ایک میز کے گرد بیٹھے، اپنے خوابوں کے جہاز کا خاکہ کھینچ رہے تھے۔ ان کے ذہن میں ایک ایسا جہاز تھا جو صرف بحری سفر کا ذریعہ نہ ہو، بلکہ ایک شاہکار ہو۔ ایک ایسا جہاز جسے دنیا “ناقابلِ غرق” کہے۔ وہ انجینئروں، ڈیزائنرز اور سرمایہ کاروں کو اس خواب کی تعبیر دینے میں لگا چکے تھے۔

یہی خواب 31 مارچ 1909 کو حقیقت بننے لگا، جب بیلفاسٹ، آئرلینڈ میں ہارلینڈ اینڈ وولف کے شپ یارڈ میں Titanic کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ ہر کیل، ہر لوہے کی چادر، اور ہر لکڑی کے ٹکڑے میں ایک عظمت چھپی تھی۔ ہزاروں مزدور، جن میں کچھ کے ہاتھ چھل گئے اور کچھ کی جان بھی گئی، اس جہاز کو بنانے میں دن رات مصروف تھے۔

تین سال کی محنت کے بعد، ایک شام کو جہاز پانی پر اتارا گیا۔ جب وہ نیلے سمندر پر اترا، تو ایسا لگتا تھا جیسے کوئی خواب جاگ اُٹھا ہو۔ دنیا بھر کے اخبارات نے سرخیاں لگائیں، “The Unsinkable Ship”… “ناقابلِ غرق جہاز”۔

10 اپریل 1912 کا دن، وہ دن تھا جب Titanic نے اپنے پہلے سفر پر روانہ ہونا تھا۔ انگلینڈ کے ساحلی شہر ساؤتھ ہیمپٹن کی بندرگاہ پر لوگوں کا ہجوم تھا۔ کچھ خوشی سے، کچھ اشکبار آنکھوں سے اپنے پیاروں کو الوداع کہہ رہے تھے۔ ہر چہرے پر ایک نئی امید، ایک نیا خواب تھا۔ کوئی امریکہ میں نیا مستقبل تلاش کرنے جا رہا تھا، تو کوئی دنیا کی سیر کو۔

جہاز کی شان و شوکت دیدنی تھی۔ فرسٹ کلاس کیبنز محلوں کی طرح تھے۔ شاندار ڈائننگ ہال، لکڑی سے سجی ہوئی دیواریں، کرسٹل لائٹس، اور فرش پر پھیلی خوبصورت قالینیں۔ فرسٹ کلاس میں بیٹھے مسافروں کو دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان سمجھا جاتا تھا۔ اور وہ تھے بھی۔

جہاز نیویارک کی طرف رواں دواں تھا۔ سمندر خاموش تھا، آسمان صاف تھا۔ ہر رات ایک محفل سجتی، موسیقی بجتی، ہنسی گونجتی، اور خواب جوان ہوتے۔

14 اپریل 1912، وہ رات آ پہنچی جو انسانیت کے لیے ایک قیامت سے کم نہ تھی۔ سرد ہوائیں چل رہی تھیں، اور سمندر دھوکہ دے رہا تھا۔ رات 11:40 پر، lookout نے چیخ کر کہا، “Iceberg, right ahead” مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔ جہاز کا دایاں حصہ ایک عظیم برفانی تودے سے ٹکرا چکا تھا۔

کچھ دیر کے لیے سب خاموش رہے۔ کوئی یقین نہیں کر پایا کہ Titanic، وہ جہاز جسے دنیا ناقابلِ غرق سمجھتی تھی، وہ پانی کے نیچے جا رہا تھا۔

کپتان ایڈورڈ اسمتھ، جنہیں یہ پہلا اور آخری سفر ملا، اپنی تمام زندگی کی خدمت کے بعد اُس رات خاموشی سے کمانڈ سنبھالے کھڑے تھے۔ وہ جانتے تھے، یہ جہاز ڈوب رہا ہے۔ مگر اُن کی آنکھوں میں کوئی خوف نہ تھا، صرف افسوس تھا۔

ٹائٹینک، ایک خواب جو سمندر کی گہرائیوں میں دفن ہو گیا

جہاز میں کل 2,224 لوگ سوار تھے

جب پانی تیزی سے نیچے والے ڈیک میں داخل ہونے لگا، تو خواتین اور بچوں کو کشتیوں میں سوار کیا جانے لگا۔ مگر کشتیاں ناکافی تھیں، صرف 20 لائف بوٹس تھیں، جن میں بھی کچھ آدھی خالی چھوڑ دی گئیں۔

وہ لمحے، جب لوگ چیخ رہے تھے، ایک دوسرے سے لپٹ رہے تھے، اپنی جان بچانے کی دعائیں کر رہے تھے… وہ انسانی تاریخ کے سیاہ ترین لمحات تھے۔

ٹائٹینک بنانے والوں کے الفاظ

J. Bruce Ismay (وائٹ اسٹار لائن کے چیئرمین):

“Titanic was a marvel of engineering, but perhaps we overestimated our triumph over nature”

“ٹائٹینک انجینئرنگ کا شاہکار تھا، شاید ہم نے قدرت پر اپنی فتح کا بہت زیادہ اندازہ لگا لیا۔”

Thomas Andrews (چیف ڈیزائنر):

حادثے کی رات وہ جہاز پر موجود تھے اور اپنی جان قربان کر کے مسافروں کو بچاتے رہے۔ ایک بچ جانے والی مسافر نے ان کے آخری الفاظ یوں نقل کیے:

“Ladies, you must get on board. Please, hurry. Goodbye”

15 اپریل 1912، صبح 2:20 بجے، Titanic مکمل طور پر سمندر کی گہرائی میں جا چکا تھا۔
1,514 افراد ہلاک ہوئے، جن میں بچے، بوڑھے، مرد، خواتین، امیر، غریب سب شامل تھے۔
صرف 710 افراد بچ سکے، جنہیں قریب سے گزرنے والے بحری جہاز Carpathia نے بچایا۔

دنیا سوگوار تھی۔ اخبارات کی سرخیاں ماتمی تھیں۔

“Titanic is Gone”… “Titanic, The Dream That Sank”۔

ٹائٹینک، ایک خواب جو سمندر کی گہرائیوں میں دفن ہو گیا

جے بروس اسمی، جو خود جہاز میں موجود تھے، بچ تو گئے، مگر کبھی زندہ نہ رہے۔ ان کا ضمیر انہیں سونے نہ دیتا۔
کپتان ایڈورڈ اسمتھ جہاز کے ساتھ ڈوب گئے۔
تھامس اینڈریوز، Titanic کے چیف ڈیزائنر، آخری لمحے تک مسافروں کو بچاتے رہے، اور وہ خود بھی شہید ہو گئے۔

1985 میں رابرٹ بیلارڈ نے جدید ٹیکنالوجی سے Titanic کے ملبے کو 12,500 فٹ نیچے دریافت کیا۔ وہ لمحہ ایسا تھا جیسے سمندر نے اپنا راز اگل دیا ہو۔ پرانی یادیں، خواب، اور تکلیفیں سب پھر سے جاگ اٹھیں۔

2025 میں، Titanic کی 113ویں برسی پر، Magellan Ltd. نے 700,000 تصویریں اور اسکینز استعمال کرتے ہوئے ایک مکمل 3D ڈیجیٹل ماڈل تیار کیا۔ یہ ماڈل “Titanic: The Digital Resurrection” نامی ڈاکیومنٹری میں پیش کیا گیا، جس نے اس جہاز کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے زندہ کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں:جوانی دل میں ہوتی ہے 80 سالہ شخص نے 79 سالہ خاتون سے محبت کی شادی کر لی

Most Popular