Saturday, April 19, 2025
ہومReligionروزے کی حالت میں وضو اور غسل کے دوران ناک میں پانی...

روزے کی حالت میں وضو اور غسل کے دوران ناک میں پانی چڑھانے کا شرعی حکم

اگر روزے کی حالت میں غسل فرض ہو جائےاور دورانِ غسل ناک کے نرم حصےتک پانی پہنچانا ضروری ہےیا نہیں؟اسی طرح وضو میں ناک میں پانی چڑھانے کا کیا حکم ہے؟

غسل کے فرائض میں کلی کرنا اور ناک کے نرم حصے تک پانی پہنچانا شامل ہیں، جبکہ وضو میں یہ دونوں امور سنت موکدہ ہیں۔

حدیث مبارک میں روزہ دار کو کلی اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ درمختار اور مراقی الفلاح میں بھی یہ تصریح موجود ہے کہ غیر روزہ دار کے لیے مبالغہ کرنا سنت ہے، جبکہ روزہ دار کے لیے احتیاط ضروری ہے۔

:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو اور غسل کے آداب بیان کرتے ہوئے فرمایا

“بالغ فی المضمضۃ والاستنشاق الا ان تکون صائما”

“کلی اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرو، سوائے اس کے کہ تم روزے سے ہو۔”

امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں کہ غسل میں ناک کے نرم حصے تک پانی پہنچانا فرض ہے، جبکہ وضو میں یہ سنت موکدہ ہے۔ اگر غسل میں ناک کے اندرونی حصے تک پانی نہ پہنچے تو غسل مکمل نہیں ہوگا اور نماز بھی ادا نہیں ہوگی۔

البتہ روزہ کی وجہ سے ناک میں زیادہ اوپر تک پانی چڑھانا اورکلی میں غرارہ کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ ناک میں پانی چڑھانے سے یا غرارہ کرنے سے پانی حلق میں چلا گیا تو اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا، لہذا  صرف  کلی کرلے اور ناک میں پانی ڈال لے توغسل صحیح ہوجائے گا، افطاری کے بعد غرارہ کرنے یاناک میں پانی چڑھانے کی ضرورت  بھی نہیں ہوگی۔

حدیث شریف میں بغیر علم کے فتویٰ دینے کی سخت وعید بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“من أفتي بغير علم كان إثمه على من أفتاه” (مشکوۃ المصابیح، صفحہ 35، مطبوعہ کراچی)۔

“جس نے بغیر علم کے فتویٰ دیا، اس کا گناہ اسی پر ہوگا جس نے فتویٰ دیا ہے۔”

یہ بھی پڑھیںاگر فرض غسل سنت کے مطابق کر لیا جائے تو کیا اس سے نماز ہو جائے گی یا الگ سے وضو کرنا ضروری ہوگا؟ 

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

✦ ✧ ✦ ✧ ✦ ✧ ✦

Most Popular