Sunday, December 22, 2024
HomePoliticsشام میں اسد خاندان کی حکمرانی کا خاتمہ اور حافظ الاسد کے...

شام میں اسد خاندان کی حکمرانی کا خاتمہ اور حافظ الاسد کے مقبرے پر حملہ

شام میں اسد خاندان کی حکمرانی کا خاتمہ اور حافظ الاسد کے مقبرے کو نقصان

معزول صدر کے والد کے مقبرے پر حملہ

حال ہی میں شام کے آبائی علاقے قرداحہ میں سابق صدر حافظ الاسد کے مقبرے پر مسلح افراد نے حملہ کیا اور اسے نذر آتش کر دیا۔ یہ واقعہ شام میں اسد خاندان کی حکومت کے خاتمے کے بعد رونما ہوا۔ مسلح افراد نے اس حملے کے دوران شدید نعرے بازی بھی کی، جس سے ملک میں جاری کشیدگی اور اختلافات مزید واضح ہو گئے ہیں۔

اسد خاندان کی حکمرانی کا اختتام

شام میں معزول صدر بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ مسلح باغیوں کے حملوں اور تنظیم “ہیئت تحریر الشام” کی قیادت میں ہوا۔ اسد خاندان کی پانچ دہائیوں پر محیط حکمرانی ختم ہو چکی ہے، اور اس تبدیلی نے شام کے سیاسی اور سماجی منظرنامے کو مکمل طور پر بدل دیا ہے۔

حافظ الاسد کی حکمرانی کا دور

حافظ الاسد نے 1971 سے 2000 تک شام پر حکومت کی۔ ان کے دور میں شام میں علوی اقلیت کو خاص اہمیت حاصل رہی، جو ملک کی آبادی کا تقریباً 10 فیصد ہیں۔ اس دوران شام کے سیاسی نظام میں استحکام تو آیا لیکن آزادی اور جمہوری اقدار پر قدغنیں لگائی گئیں۔ حافظ الاسد کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے بشار الاسد کو صدارت سونپی گئی، جس کے بعد اس خاندان کی حکمرانی مزید دو دہائیوں تک جاری رہی۔

علوی فرقے کا کردار

اسد خاندان کا تعلق علوی شیعہ فرقے سے ہے، جو شام کی کل آبادی کا ایک چھوٹا حصہ ہیں۔ تاہم، اس فرقے نے اسد خاندان کی بھرپور حمایت کی اور ان کے اقتدار کو مضبوط بنایا۔ زیادہ تر علوی آبادی شام کے صوبے لتاکیا میں رہائش پذیر ہے، جو بحیرہ روم کے قریب واقع ہے۔ اس حمایت کے باوجود، حالیہ سیاسی بحران نے علوی کمیونٹی کو بھی تقسیم کر دیا ہے۔

مقبرے پر حملے کے اثرات

حافظ الاسد کے مقبرے پر حملے کو شام میں جاری تنازع کا ایک اہم موڑ سمجھا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف اسد خاندان کے حامیوں کے لیے دھچکہ ہے بلکہ اس سے ملک میں موجود سیاسی اختلافات کی شدت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق، اس واقعے کے بعد اسد خاندان کے حامیوں کو انتقامی کارروائیوں کا خدشہ لاحق ہو گیا ہے۔

شام میں مجسموں اور علامتوں کا ہٹایا جانا

اسد خاندان کی حکمرانی کے خاتمے کے بعد شام میں ان کے پوسٹرز، مجسمے اور دیگر علامتوں کو ہٹانے کا عمل جاری ہے۔ باغیوں کی جانب سے یہ اقدامات ان کی حکمرانی کے خلاف اظہارِ نفرت کے طور پر کیے جا رہے ہیں۔ یہ عمل شام کی تاریخ میں ایک نئی شروعات کی عکاسی کرتا ہے، لیکن یہ تنازع مزید گہرا ہونے کا خدشہ بھی پیدا کر رہا ہے۔

علوی کمیونٹی کے خدشات

اس تبدیلی کے بعد علوی کمیونٹی خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے۔ اس کمیونٹی کو خدشہ ہے کہ وہ انتقامی کارروائیوں کا شکار ہو سکتی ہے، خاص طور پر جب اسد خاندان کی حکومت میں ان کی نمایاں حیثیت رہی ہے۔ موجودہ حالات میں علوی کمیونٹی کو اپنے مستقبل کے حوالے سے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔

شام کا بدلتا سیاسی نظام

اسد خاندان کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام کا سیاسی نظام مکمل طور پر تبدیل ہو رہا ہے۔ ملک میں ایک نئی حکومت کے قیام کے لیے کوششیں جاری ہیں، لیکن مختلف باغی گروہوں کے درمیان اختلافات اور عدم اتفاق اس عمل کو پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ اسد خاندان کی حکمرانی کے دوران موجود طاقت کا توازن اب مکمل طور پر بکھر چکا ہے۔

بین الاقوامی برادری کی دلچسپی

شام کی صورتحال پر بین الاقوامی برادری کی گہری نظر ہے۔ مختلف ممالک شام کے سیاسی اور سماجی حالات میں اپنی دلچسپی رکھتے ہیں، جس سے یہ مسئلہ ایک عالمی تنازع کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں شام کی داخلی سیاست بین الاقوامی تعلقات پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہے۔

تاریخی پس منظر

اسد خاندان کی حکمرانی کی جڑیں 1971 میں حافظ الاسد کے اقتدار میں آنے سے شروع ہوتی ہیں۔ حافظ الاسد نے شام میں سیاسی استحکام لانے کی کوشش کی، لیکن ان کے دور میں جمہوریت اور آزادی کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے گئے۔ ان کی وفات کے بعد بشار الاسد نے حکومت سنبھالی اور ملک کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، جن میں عرب بہار کے اثرات اور مختلف باغی گروہوں کی بغاوت شامل ہیں۔

شام کا مستقبل

اسد خاندان کی حکمرانی کے خاتمے کے بعد شام کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ ملک کو سیاسی استحکام، اقتصادی بحالی اور سماجی ہم آہنگی کے لیے کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ، نئی حکومت کی تشکیل اور بین الاقوامی تعلقات میں شام کی جگہ کو بھی دوبارہ متعین کرنے کی ضرورت ہے۔

نتیجہ

شام میں حافظ الاسد کے مقبرے پر حملہ اور اسد خاندان کی حکومت کا خاتمہ ایک تاریخی موڑ ہے۔ یہ واقعہ شام کے سیاسی منظرنامے کو تبدیل کر چکا ہے اور اس کے اثرات مستقبل میں بھی دیکھے جائیں گے۔ تاہم، اس تبدیلی کے ساتھ ساتھ کئی چیلنجز بھی سامنے آئے ہیں، جن کا حل تلاش کرنا شام کے لیے ضروری ہوگا۔

RELATED ARTICLES

Most Popular