صیہونی وزیراعظم کا یوٹرن، 600 سے زائد مسلم قیدیوں کی رہائی مؤخر
تعارف
صیہونی حکومت نے ایک بار پھر اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹتے ہوئے 600 سے زائد مسلم قیدیوں کی رہائی کو مؤخر کر دیا ہے۔ اس اچانک یوٹرن سے نہ صرف قیدیوں کے اہل خانہ کو مایوسی ہوئی ہے بلکہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
قیدیوں کی رہائی کا اعلان اور اچانک مؤخر ہونا
ابتدائی طور پر اسرائیلی حکومت نے 600 سے زائد مسلم قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا تھا، جسے ایک مثبت اقدام قرار دیا جا رہا تھا۔ تاہم، غیر متوقع طور پر اس فیصلے کو مؤخر کر دیا گیا، جس پر مختلف حلقوں نے سوالات اٹھائے ہیں۔
سیاسی دباؤ یا حکمت عملی؟
ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ فیصلہ اسرائیلی حکومت پر داخلی اور خارجی دباؤ کے باعث لیا گیا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق، اس اقدام کے پیچھے صیہونی وزیراعظم کی سیاسی حکمت عملی کارفرما ہو سکتی ہے، جس کے ذریعے وہ اپنی حکومت کو مستحکم رکھنا چاہتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا ردعمل
عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیلی حکومت کے اس یوٹرن پر شدید تنقید کی ہے۔ ان کے مطابق، قیدیوں کو غیر ضروری طور پر حراست میں رکھنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، اور اس پر عالمی برادری کو سخت موقف اختیار کرنا چاہیے۔
قیدیوں کے اہل خانہ کی مایوسی
قیدیوں کے اہل خانہ، جو اپنے پیاروں کی رہائی کا شدت سے انتظار کر رہے تھے، اس اچانک فیصلے سے شدید مایوس ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نہ صرف ان کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے بلکہ انصاف کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔
عالمی ردعمل اور آئندہ کے امکانات
یہ معاملہ بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل کر چکا ہے، اور مختلف ممالک کی حکومتوں اور تنظیموں نے اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں دیکھا جائے گا کہ کیا یہ قیدی واقعی رہا کیے جاتے ہیں یا نہیں، لیکن اس وقت صورتحال غیر یقینی بنی ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایران کی وارننگ: ایٹمی پروگرام پر امریکی و اسرائیلی بیانات مسترد