30 مارچ 1432ء کو ادیرنہ (موجودہ ترکی) کے ایک شاہی محل میں ایک ایسے بچے کی ولادت ہوئی جس نے آنے والے وقت میں دنیا کے نقشے کو بدل کر رکھ دینا تھا۔ یہ بچہ تھا محمد بن مراد، جو بعد میں سلطان محمد الفاتح رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانے گئے۔ ان کے والد سلطان مراد دوم ایک مدبر حکمران تھے جنہوں نے اپنے بیٹے کو نہ صرف علمی و دینی تربیت دی بلکہ روحانیت اور عسکری مہارتوں سے بھی آراستہ کیا۔
ان کی تعلیم کے ابتدائی ایام ہی میں، ایک مشہور حدیث ان کے دل میں گھر کر گئی:
“لَتُفْتَحَنَّ الْقُسْطَنْطِينِيَّةُ فَلَنِعْمَ الْأَمِيرُ أَمِيرُهَا وَلَنِعْمَ الْجَيْشُ ذَلِكَ الْجَيْشُ” (مسند احمد)
ترجمہ: “تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرو گے، کیا ہی اچھا امیر ہوگا وہ امیر، اور کیا ہی بہترین ہوگی وہ فوج۔”
محمد الفاتح نے اس حدیث کو اپنا مقصدِ حیات بنا لیا۔ ان کے اساتذہ میں سب سے نمایاں شخصیت شیخ آق شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ کی تھی، جنہوں نے ان کے دل میں عشقِ رسول ﷺ اور دینی حمیت کو راسخ کیا۔
جب ان کے والد کا انتقال ہوا، تو محمد صرف 19 برس کے نوجوان تھے۔ انہوں نے کم عمری کے باوجود عثمانی سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی اور انتہائی بصیرت و فہم سے قیادت کی۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی قسطنطنیہ کی فتح تھی، جو 29 مئی 1453ء کو 53 دن کے طویل محاصرے کے بعد عمل میں آئی۔
قسطنطنیہ کی دیواریں اس وقت ناقابلِ تسخیر سمجھی جاتی تھیں، لیکن سلطان نے جدید توپ خانہ، بحری جہازوں کو خشکی پر کھینچ کر منتقل کرنا، اور نفسیاتی حکمتِ عملی سے دشمن کو حیران کر دیا۔ شہر فتح ہوا، کلیسا مسجد میں تبدیل ہوا، اور قسطنطنیہ کو “اسلام بول” (استنبول) کا نام دیا گیا۔
اس فتح کے بعد سلطان محمد الفاتح رحمۃ اللہ علیہ نے یورپ کی جانب بھی پیش قدمی کی۔ بلقان، سربیا، بوسنیا، ہنگری، البانیا، اور مورا کے علاقوں کو عثمانی سلطنت کا حصہ بنایا۔ اناطولیہ کے بکھرے ہوئے قبائل کو وحدت دی اور روم کے پاپا کے خلاف سخت مؤقف اپنایا، یہاں تک کہ بازنطینی اثر و رسوخ مکمل طور پر ختم ہو گیا۔
انہوں نے جہاں فوجی فتوحات حاصل کیں، وہیں علم و عدل کو بھی اپنا شعار بنایا۔ استنبول میں مدارس، جامعات، کتب خانے اور مساجد تعمیر کرائیں۔ علوم و فنون کے ماہرین کو دربار میں بلایا۔ غیر مسلموں کو بھی مذہبی آزادی دی۔
ان کا ایک مشہور قول ہے:
“عدل وہ ستون ہے جس پر سلطنتیں قائم رہتی ہیں، ورنہ تلوار سے محض فتوحات ممکن ہیں، دوام نہیں۔”
خاندانی زندگی کے اعتبار سے، نے کئی شادیاں کیں۔ سلطان محمد الفاتح رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور زوجات میں گل بہار خاتون، سیرین خاتون اور کلبی خاتون شامل تھیں۔ ان کی اولاد میں دو بیٹے خاص طور پر تاریخ میں مشہور ہوئے:
سلطان بایزید ثانی – جنہوں نے والد کی وفات کے بعد عثمانی سلطنت کی قیادت سنبھالی اور ان کے اصلاحاتی منصوبوں کو آگے بڑھایا۔
جم سلطان – علم و ادب کے دلدادہ تھے، لیکن تخت کی جنگ میں ناکام ہو کر یورپ میں جلا وطن ہو گئے۔
3 مئی 1481ء کو سلطان محمد الفاتح ایک نئی فوجی مہم کی تیاری کے دوران مالتپہ کے مقام پر وفات پا گئے۔ ان کا جسدِ خاکی استنبول میں دفن ہے اور آج بھی لاکھوں زائرین ان کی قبر پر حاضری دیتے ہیں۔
سلطان محمد الفاتح رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد بھی ان کی یاد، ان کی فتوحات، عدل، علم دوستی، اور عشقِ رسول ﷺ کے نقوش تاریخ پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو چکے ہیں۔
وہ نوجوان جو بچپن میں ایک حدیث کا مصداق بننے کی خواہش لے کر تربیت یافتہ ہوا، بالآخر دنیا کو بتا گیا کہ عشق، علم، اور جہاد کا امتزاج دنیا کی سب سے مضبوط دیواروں کو بھی جھکا سکتا ہے۔

