اورنگزیب عالمگیرؒ، مغلیہ دور کے چھٹے اور اثرانداز فرمانروا، 3 نومبر 1618ء کو دوحد (گجرات) میں پیدا ہوئے۔ ان کا پیدائشی نام محی الدین محمد تھا اور وہ شہنشاہ شاہجہان و ممتاز محل کے فرزندِ اصغر تھے۔ بچپن سے ہی ان کی طبیعت میں سنجیدگی، زہد اور دین سے لگاؤ نمایاں تھا، جس نے انہیں دیگر شہزادوں سے ممتاز کر دیا۔
اورنگزیبؒ نے قرآن کریم کو حفظ کیا اور فقہ، حدیث و عربی زبان میں گہری مہارت حاصل کی۔ علم و عبادت ان کی روزمرہ کا حصہ تھی، اور وہ سادہ زندگی کے قائل تھے۔ شاہی محل کی پرتعیش فضا کے باوجود، ان کا رہن سہن نہایت سادہ اور درویشانہ تھا۔ انہی روحانی خوبیوں نے ان کے حکومتی فیصلوں پر گہرا اثر ڈالا۔
تخت نشینی اور خانہ جنگی کا دور
1657ء میں شاہجہان کے علیل ہونے پر ان کے بیٹوں میں تخت نشینی کی جنگ چھڑ گئی۔ اورنگزیبؒ نے دارا شکوہ، شجاع اور مراد بخش سے نبردآزما ہو کر بالآخر 1658ء میں فتح حاصل کی۔ ان کی عسکری چابکدستی اور سیاسی تدبر انہیں دہلی کے تخت تک لے گیا، جہاں سے ان کا بامِ عروج شروع ہوا۔
اورنگزیبؒ نے تخت پر آتے ہی حکومت کو شریعتِ اسلامی کے مطابق استوار کرنا شروع کیا۔ انہوں نے فتاویٰ عالمگیری ترتیب دلوائی، جو اسلامی قانون کا ایک جامع خزانہ ہے۔ ان کے دور میں غیر شرعی رسم و رواج، لہو و لعب، موسیقی اور شراب نوشی پر سخت پابندی لگا دی گئی۔ علما و فقہا کو بڑی عزت اور مقام حاصل تھا۔
دکن اور مرہٹوں کے خلاف جنگیں
جنوبی ہند کی طاقتور ریاستیں بیجاپور اور گولکنڈہ ان کا بڑا عسکری ہدف بنیں۔ کئی شدید معرکوں کے بعد ان دونوں سلطنتوں کو مغلیہ دائرہ اقتدار میں شامل کر لیا گیا۔ یہ کامیابیاں جنوبی ہندوستان میں مغل اثر و رسوخ کے استحکام کا باعث بنیں۔ اگرچہ مرہٹہ مزاحمت نے ان کا کافی وقت لیا، تاہم وہ پیچھے نہ ہٹے۔
مرہٹہ سردار شیواجی کے ساتھ ان کی طویل جنگی چالاکی نے دکن کو غیر مستحکم کیا۔ شیواجی کی موت کے بعد مرہٹوں کی قوت میں وقتی کمزوری آئی، لیکن ان کی بغاوتیں ختم نہ ہو سکیں۔ اورنگزیبؒ نے کئی مرہٹہ قلعے فتح کیے اور کئی سرداروں کو زیر کر کے مغل دربار کا حصہ بنایا۔ ان کی یہ مہمات عمر بھر جاری رہیں۔
راجپوت ریاستوں کے ساتھ ان کے تعلقات وقتاً فوقتاً بدلتے رہے۔ کبھی اطاعت، کبھی بغاوت۔ انہوں نے سخت کارروائیاں کیں، مگر ساتھ ہی کچھ راجپوتوں کو مغل حکومت میں بڑے عہدے بھی دیے۔ یہ توازن ان کی سیاسی دانائی کا غماز ہے۔ راجپوتوں کی طاقت کو قابو میں رکھنا ان کی خارجہ پالیسی کا اہم جز تھا۔
آخری ایام، وفات اور تاریخی ورثہ
ان کی ازدواجی زندگی کا تذکرہ کم ملتا ہے، لیکن ان کی زوجہ دلرس بانو بیگم سے کئی اولادیں ہوئیں۔ ان کے بیٹوں میں سب سے نمایاں بہادر شاہ اول تھا، جس نے ان کی وفات کے بعد حکومت سنبھالی۔ اورنگزیبؒ نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت دینی اور ریاستی دونوں پہلوؤں پر دی۔
زندگی کا آخری بیس سال انہوں نے دکن کی سرزمین پر گزارا، جہاں وہ لشکر کی قیادت خود کرتے تھے۔ خلدآباد (مہاراشٹرا) میں ایک سادہ جھونپڑی میں رہائش اختیار کر کے وہ سلطنت چلاتے رہے۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کی قبر بغیر کسی شاہی تزئین کے بنائی گئی۔ وہ 3 مارچ 1707ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
ان کے بعد مغل سلطنت زوال کا شکار ہو گئی کیونکہ ایسا مضبوط اور اصولی حکمران دوبارہ نہ آ سکا۔ اورنگزیب عالمگیرؒ کا نام آج بھی شریعت پسندی، دیانت اور زاہدانہ حکمرانی کی علامت کے طور پر لیا جاتا ہے۔ وہ بادشاہ جس نے سلطنت کے تخت پر درویشوں جیسی زندگی بسر کی، تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔