بیماری کا بڑھتا ہوا رجحان
ماضی میں ذیابیطس ٹائپ 2 کو صرف درمیانی عمر یا بڑی عمر کے افراد کا مرض سمجھا جاتا تھا، مگر اب یہ بیماری تیزی سے 20 سال سے زائد عمر کے نوجوانوں میں عام ہو رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس رجحان کی کئی وجوہات ہیں جو نوجوانوں کی روزمرہ زندگی سے جڑی ہوئی ہیں۔
موٹاپا اور انسولین کی مزاحمت
وجوانوں میں بڑھتا ہوا جسمانی وزن اور خاص طور پر پیٹ کے گرد چربی کا جمع ہونا انسولین کی مؤثر کارکردگی میں رکاوٹ بنتا ہے۔ جب انسولین اپنی صلاحیت کھو دیتی ہے تو بلڈ شوگر کنٹرول میں نہیں رہتی، جس کے نتیجے میں ذیابیطس پیدا ہو جاتی ہے۔
غذائی عادات کی خرابی
چینی، نمک، فاسٹ فوڈ اور پراسیسڈ اشیاء کی زیادہ مقدار نوجوانوں کی خوراک میں شامل ہے۔ یہ غذائیں میٹابولزم کو کمزور کرتی ہیں، جس سے جسم میں شوگر کو ہضم کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
جسمانی سرگرمیوں میں کمی
آج کے نوجوان زیادہ تر وقت اسمارٹ فونز، کمپیوٹرز یا دیگر اسکرینوں کے سامنے گزارتے ہیں۔ اس سست طرز زندگی سے جسمانی نظام سست پڑ جاتا ہے، جس سے انسولین کی حساسیت متاثر ہوتی ہے اور خون میں شوگر کی سطح بڑھ جاتی ہے۔
خاندانی تاریخ اور جینیاتی اثرات
اگر خاندان میں کسی قریبی فرد کو ذیابیطس ہو، تو نوجوانوں میں اس بیماری کا خطرہ دوگنا ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر اگر یہ جینیاتی خطرہ غیر صحت مند طرزِ زندگی سے مل جائے تو بیماری جلد ظاہر ہو سکتی ہے۔
جنوبی ایشیائی باشندوں میں خطرہ زیادہ
تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جنوبی ایشیائی افراد، جیسے پاکستانی یا بھارتی نوجوان، مغربی ممالک کے افراد کی نسبت ذیابیطس کا شکار ہونے کے لیے زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ ماہرین اس کی وجوہات جینیاتی ساخت اور مخصوص غذائی عادات کو قرار دیتے ہیں۔
ماہرین کا مشورہ
ماہرین صحت کے مطابق نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی خوراک میں توازن رکھیں، چینی اور فاسٹ فوڈ کا استعمال کم کریں، جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لیں، اور باقاعدگی سے اپنا شوگر لیول چیک کرائیں تاکہ ذیابیطس جیسے خاموش قاتل سے بچا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب میں اے آئی ڈاکٹر نے انسانی ڈاکٹروں کا کردار سنبھال لیا