عدالت میں حکومت کی تاخیر پر برہمی
سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کے لیے پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا ہے، اب جسمانی ریمانڈ کی کوئی گنجائش نہیں۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ جسمانی ریمانڈ اب بے معنی ہے، اگر آپ کو فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک یا وائس میچنگ ٹیسٹ کروانے ہیں تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کریں۔
عدالت کی حکومت پر تنقید
پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے مؤقف اختیار کیا کہ ملزم نے تعاون نہیں کیا، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ جیل میں زیر حراست شخص سے اور کیا تعاون درکار ہے؟ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے طنز کرتے ہوئے کہا، “کیا پتا کل آپ میرا نام بھی 9 مئی کیسز میں ڈال دیں۔” عدالت نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے وکلا ٹرائل کورٹ میں کسی بھی درخواست پر قانونی اعتراضات اٹھانے کے مجاز ہیں۔
عام شہریوں کے مقدمات میں یکساں سلوک کی امید
جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیے کہ ایسے ٹیسٹ تو عام قتل کیسز میں بھی نہیں کرائے جاتے، امید ہے حکومت عام آدمی کے مقدمات میں بھی ایسی ہی تیزی دکھائے گی۔ عدالت نے مزید کہا کہ ایسے کیسز میں ڈیڑھ سال بعد ریمانڈ مانگنا قانونی طور پر غیر موزوں ہے۔
ٹرائل کورٹ سے رجوع کی اجازت
سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کی اپیلیں دو بنیادوں پر نمٹاتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے فوٹوگرافک، پولی گرافک یا وائس میچنگ ٹیسٹ کے لیے رجوع کر سکتی ہے، اور بانی پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم ایسی کسی بھی درخواست پر اعتراض کا حق رکھتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:عمران خان سے جیل میں امریکی پاکستانی شخص کی ملاقات کا انکشاف