شام میں بشار الاسد کی حکومت گرانے کا منصوبہ امریکہ اور اسرائیل نے مل کر بنایا: ایرانی سپریم لیڈر
امریکہ اور اسرائیل کا منصوبہ
ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے دعویٰ کیا ہے کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت گرانے کا منصوبہ امریکہ اور اسرائیل نے مل کر بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سازش میں شام کے ایک ہمسایہ ملک نے بھی کردار ادا کیا ہے، تاہم انہوں نے اس ملک کا نام لینے سے گریز کیا۔
شام کا اہم اتحادی ایران
بشار الاسد کو خطے میں ایران کا اہم اتحادی سمجھا جاتا ہے، اور ایران نے اس حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے مالی اور عسکری مدد فراہم کی ہے۔ ایران کی حمایت سے شام میں حکومت مستحکم رہی، لیکن امریکی اور اسرائیلی سازشوں نے مسائل پیدا کیے۔
یہ بھی پڑھیں: شام سے پاکستانیوں کا محفوظ انخلا، 250 شہریوں کو نکال لیا گیا: وزارت خارجہ
ترکیہ کا مبہم کردار
علی خامنہ ای نے ترکیہ کا ذکر کیے بغیر کہا کہ شام کے ایک پڑوسی ملک نے باغیوں کی حمایت کی۔ ان کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا اشارہ ترکیہ کی طرف تھا، جو 2011 سے شام کے باغی گروپوں کا سب سے بڑا حامی رہا ہے۔ ترکیہ نے شامی کرد ملیشیا کے خلاف کئی علاقوں کا کنٹرول بھی سنبھال رکھا ہے۔
مزاحمت کے محور کو دھچکا
بشار الاسد حکومت کا خاتمہ مشرق وسطیٰ میں ایران کی قیادت میں قائم “مزاحمت کے محور” کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ ایران نے اسرائیل کے خلاف سیاسی اور عسکری اتحاد تشکیل دیا تھا، جس میں شام کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔
امریکہ اور اسرائیل کی منصوبہ بندی
ایران کے سرکاری میڈیا سے نشر تقریر میں خامنہ ای نے کہا کہ شام میں جو کچھ ہوا، اس کی منصوبہ بندی امریکہ اور اسرائیل کے کمانڈ رومز میں ہوئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ شام کے پڑوسی ملک کا کردار اس سازش میں واضح تھا اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔
ایران کا ردعمل
شام میں حکومت کی معزولی کے بعد ایران نے اعلان کیا کہ وہ دمشق کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کرے گا۔ ایران کا کہنا ہے کہ شامی معاشرے کے تمام طبقات پر مشتمل حکومت کے قیام کا خواہاں ہے۔
ایران کی مزاحمتی حکمت عملی
خامنہ ای نے کہا کہ خطے میں ایران کی قیادت میں مزاحمتی اتحاد دوبارہ مضبوط ہو گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ دباؤ بڑھنے کے باوجود ایران کی مزاحمت مزید مستحکم ہو گی اور دشمنوں کے جرائم ایران کے عزم کو کمزور نہیں کر سکتے۔
ایران کا مستقبل کا عزم
اپنی تقریر میں خامنہ ای نے کہا کہ ایران مزید مضبوط اور طاقتور ہو گا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ایران کی قیادت میں خطے کا اتحاد اور مزاحمت پھیلتی رہے گی۔