پاکستان میں ایل این جی کی طلب میں مسلسل کمی کے باعث حکومت کے لیے درآمد شدہ ایل این جی کا مؤثر استعمال ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق حکومت نے عالمی منڈی میں مزید 6 ایل این جی کارگو ری ڈائریکٹ کر دیے ہیں جو کہ 2025ء کے مختلف مہینوں یعنی جولائی، اگست، ستمبر، اکتوبر، نومبر اور دسمبر کے لیے مختص کیے گئے تھے۔
ان نئے مؤخر شدہ شپمنٹس کے ساتھ ہی اب تک کل 11 ایل این جی کارگو عالمی مارکیٹ کو منتقل کیے جا چکے ہیں۔ اس سے قبل بھی حکومت قطر سے 2025ء میں درآمد کیے جانے والے 5 کارگو مؤخر کر چکی ہے۔ یہ تمام اقدامات ملک میں کم کھپت اور سٹوریج کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اٹھائے گئے ہیں۔
گیس سیکٹر سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر درآمد شدہ ایل این جی کو فوری استعمال میں نہ لایا جائے اور اسے پائپ لائنز میں منتقل کیا جائے تو یہ نظام پر دباؤ بڑھا دیتی ہے۔ پریشر بڑھنے سے گیس پائپ لائنوں میں دھماکے یا لیکج کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، کیونکہ موجودہ سسٹم میں اضافی گیس ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان میں ایل این جی کے استعمال میں کمی کی وجہ صنعتی سرگرمیوں میں کمی، متبادل ایندھن کا استعمال، اور مالی مشکلات ہیں جن کے باعث ایل این جی کی طلب کم ہو گئی ہے۔ حکومت کے لیے یہ ایک دہرے چیلنج کی صورت اختیار کر گیا ہے: ایک طرف بھاری معاہدے موجود ہیں، دوسری طرف طلب نہ ہونے کی وجہ سے ان معاہدوں پر عمل درآمد مشکل ہو رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت کو نہ صرف طلب میں اضافے کے لیے صنعتی و توانائی شعبے کو متحرک کرنا ہوگا بلکہ گیس اسٹوریج سہولیات کے قیام پر بھی فوری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

