چیمپئنز ٹرافی: رمضان کے دوران میچز کھیلنے پر محمد شامی نے کیا جواب دیا؟
رمضان میں کرکٹ اور محمد شامی کا مؤقف
دبئی: بھارتی فاسٹ بولر محمد شامی کا کہنا ہے کہ ان کی توجہ رمضان کے دوران چیمپئنز ٹرافی میں بہترین کارکردگی پر ہے، اور وہ بعد میں روزوں کی قضا کریں گے۔ ان کے مطابق، ایک پروفیشنل کرکٹر ہونے کے ناطے انہیں اپنے فرائض کو ترجیح دینی ہوتی ہے تاکہ ٹیم کی کارکردگی پر کوئی اثر نہ پڑے۔
شیڈول اور پروفیشنلزم
دبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں صحافیوں نے جب رمضان المبارک میں روزے رکھنے سے متعلق سوال کیا تو شامی نے واضح کیا کہ بھارتی ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کے لیے ایک مخصوص شیڈول بنایا جاتا ہے، جس پر عمل کرنا ہر کھلاڑی کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ملک کی نمائندگی کی بات ہو تو کرکٹرز کو شیڈول پر سختی سے کاربند رہنا پڑتا ہے، کیونکہ ہر میچ ٹیم کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔
روزے اور فزیکل فٹنس
محمد شامی نے اعتراف کیا کہ روزے کی حالت میں کرکٹ کھیلنا آسان نہیں ہوتا، خاص طور پر جب میچز سخت اور حریف ٹیمیں مضبوط ہوں۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ کھلاڑیوں کے لیے نیند، خوراک اور ٹریننگ کے بعد بحالی کا عمل بہت ضروری ہوتا ہے۔ ماہرین کی ہدایات پر عمل کرکے کھلاڑی اپنی فٹنس برقرار رکھتے ہیں تاکہ ان کی کارکردگی متاثر نہ ہو۔
چیمپئنز ٹرافی میں شاندار کارکردگی
چیمپئنز ٹرافی میں محمد شامی کی کارکردگی قابلِ ذکر رہی ہے۔ انہوں نے سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے خلاف تین اہم وکٹیں حاصل کرکے اپنی ٹیم کو کامیابی کی راہ پر گامزن کیا۔ ان کی رفتار، لائن اور لینتھ نے حریف ٹیم کے بلے بازوں کو مشکلات میں ڈالے رکھا، جو ان کی مہارت اور تجربے کا ثبوت ہے۔
قومی ذمہ داری اولین ترجیح
محمد شامی نے مزید کہا کہ ایک کھلاڑی کے لیے ملک کی نمائندگی سب سے بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ روزوں کی قضا بعد میں کی جا سکتی ہے، لیکن جب میدان میں کھیلنے کا وقت ہو تو مکمل تیاری کے ساتھ جانا ضروری ہوتا ہے۔ ان کے مطابق، کرکٹ ایک ٹیم گیم ہے اور ہر کھلاڑی کی کارکردگی جیت کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے۔
مداحوں کے تاثرات
شامی کے اس بیان پر ان کے مداحوں کی طرف سے مختلف آراء سامنے آئیں۔ کچھ لوگوں نے ان کے فیصلے کو سراہا اور اسے قومی جذبے کی علامت قرار دیا، جبکہ کچھ نے کہا کہ روزے اور کھیل دونوں کو متوازن طریقے سے لے کر چلنا بھی ممکن ہے۔ تاہم، بیشتر کرکٹ ماہرین کا ماننا ہے کہ کھلاڑیوں کو اپنی فزیکل فٹنس اور میچ کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنے چاہئیں۔
یہ بھی پڑھیں:لاہور میں 28 سال بعد چیمپئنز ٹرافی کی واپسی، آج انگلینڈ اور آسٹریلیا کا بڑا ٹاکرا