ذوالفقار علی بھٹو: پاکستان کی سیاست کا درخشاں باب
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی تاریخ کے اُن نمایاں ترین سیاسی رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے نہ صرف ایک منفرد سیاسی فکر کو جنم دیا بلکہ ملکی تاریخ کے اہم فیصلوں میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی شخصیت میں بیک وقت کرشمہ، جراءت، بصیرت اور عوامی مقبولیت کا امتزاج پایا جاتا تھا۔
ابتدائی زندگی
ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928 کو لاڑکانہ (سندھ) کے ایک ممتاز سیاسی و جاگیردار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو برطانوی ہندوستان کے اہم سیاستدانوں میں سے تھے۔ بھٹو نے ابتدائی تعلیم بمبئی سے حاصل کی اور بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ اور برطانیہ گئے۔ انہوں نے “یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے” اور پھر “آکسفورڈ یونیورسٹی” سے تعلیم حاصل کی، جہاں سے وہ بین الاقوامی قانون میں ماہر بن کر واپس لوٹے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی ازدواجی زندگی اور اولاد
ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی زندگی بھی ان کی سیاسی زندگی کی طرح پیچیدہ اور اہم رہی۔ ان کی شادی 1951 میں نصرت بھٹو سے ہوئی، جو ایک ایرانی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ نصرت بھٹو کا تعلق ایک ممتاز اور بااثر خاندان سے تھا، اور وہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ سیاسی سفر میں ہمیشہ شانہ بشانہ رہیں۔ نصرت بھٹو کی شخصیت نہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کے لیے بلکہ پاکستان کے سیاسی منظرنامے کے لیے بھی اہمیت رکھتی تھی۔
اولاد
ذوالفقار علی بھٹو اور نصرت بھٹو کے تین بچے تھے:
1.بینظیر بھٹو:
ان کا سب سے مشہور اور اہم بچہ بینظیر بھٹو تھی، جو پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بنیں۔ بینظیر بھٹو نے اپنے والد کی سیاسی وراثت کو آگے بڑھایا اور ان کے مشن کو جاری رکھا۔ ان کی سیاست اور زندگی نے پاکستانی عوام پر گہرا اثر چھوڑا، اور وہ آج بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔
2.شہناز بھٹو:
شہناز بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی دوسری بیٹی تھیں۔ شہناز کی زندگی نسبتاً کم عوامی سطح پر رہی، اور انہوں نے اپنی والدہ نصرت بھٹو کی طرح عوامی زندگی سے دور رہ کر ایک سادہ زندگی گزاری۔
3.میر مرتضیٰ بھٹو:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹا میر مرتضیٰ بھٹو تھا، جو ایک سیاستدان اور پیپلز پارٹی کے سرگرم رکن تھے۔ انہوں نے اپنے والد کی سیاسی وراثت کو اپنانے کی کوشش کی لیکن 1996 میں کراچی میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ ان کی موت نے بھٹو خاندان کو مزید سیاسی اور ذاتی طور پر متاثر کیا۔
سیاست میں قدم
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز جنرل ایوب خان کی کابینہ میں بطور وزیرِ تجارت کیا، بعد ازاں وہ وزیرِ خارجہ بنے۔ اسی دوران انہوں نے عالمی سطح پر پاکستان کو ایک خودمختار اور خوددار ریاست کے طور پر منوانے کی کوششیں کیں۔ 1965 کی جنگ کے بعد تاشقند معاہدہ پر اختلافات کی بنیاد پر بھٹو نے ایوب کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام
1967 میں ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) کی بنیاد رکھی، جس کا نعرہ تھا: “روٹی، کپڑا اور مکان”۔ یہ نعرہ جلد ہی ملک کے غریب عوام میں مقبول ہوگیا، کیونکہ اس وقت عوام معاشی بدحالی اور سماجی ناہمواریوں کا شکار تھے۔
وزیرِاعظم کا دور (1973–1977)
1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد، بھٹو نے عبوری صدر اور پھر وزیرِاعظم کی حیثیت سے ملک کی باگ دوڑ سنبھالی۔ ان کے دور میں کئی اہم اقدامات کیے گئے:
- 1973 کا آئین: پاکستان کا متفقہ اور جامع آئین بھٹو کے دورِ حکومت میں نافذ کیا گیا۔
- ایٹمی پروگرام کی بنیاد: بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد، بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالی۔
- صنعتوں کا قومی تحویل میں لینا: بڑی صنعتوں کو نیشنلائز کیا گیا تاکہ دولت کا ارتکاز کم ہو۔
- اسلامی دنیا سے تعلقات: 1974 میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
- سوشلسٹ پالیسیوں کا نفاذ: غریب طبقے کو بااختیار بنانے کی کوششیں کی گئیں۔
زوال اور مقدمہ
1977 میں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد تحریک نظام مصطفیٰ شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977 کو مارشل لا نافذ کر کے بھٹو حکومت کو برطرف کر دیا۔ ان پر ایک سیاسی مخالف کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا۔ یہ مقدمہ عالمی سطح پر متنازعہ قرار دیا گیا، کیونکہ عدالتی کارروائی میں شفافیت اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت: ایک تلخ حقیقت
ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی زندگی پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین ادوار میں سے ایک تھی۔ انہوں نے نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی بلکہ ملکی سیاست میں ایک نیا رخ دینے کی کوشش کی۔ ان کی قیادت میں پاکستان نے نہ صرف ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی بلکہ انہیں عوامی سطح پر ایک عظیم رہنما کے طور پر مانا جاتا تھا۔ لیکن ان کی سیاسی زندگی کے اختتام نے پاکستانی سیاست کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ 4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی، اور یہ دن پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
پھانسی کے پیچھے سیاسی پس منظر
1977 میں ہونے والے عام انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی، لیکن ان انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد ملک بھر میں شدید سیاسی بحران پیدا ہو گیا۔ اپوزیشن کی جماعتوں نے احتجاج شروع کر دیا اور جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں فوجی بغاوت ہوئی۔ 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کر کے بھٹو کی حکومت کو ختم کر دیا اور انہیں گرفتار کر لیا۔
ذوالفقار علی بھٹو پر ایک سیاسی مخالف، نواب محمد احمد خان Kasuri کے قتل کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا۔ تاہم، اس مقدمے میں کئی سوالات اٹھے تھے:
مقدمہ کا بیشتر حصہ سیاسی نوعیت کا تھا، اور یہ الزام تھا کہ بھٹو حکومت اپوزیشن کو کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال کر رہی تھی۔
عدالت میں بھٹو کے دفاعی وکلاء کو مکمل طور پر مقدمے کی کارروائی پر اثرانداز ہونے کا موقع نہیں دیا گیا۔
اس مقدمے کی سماعت کے دوران پاکستان کی عدالتوں اور عالمی سطح پر یہ سوال اٹھایا گیا کہ آیا انصاف کا عمل صحیح طور پر جاری تھا یا سیاسی دباؤ تھا۔
سابق چیف جسٹس، آغا خان اور کئی بین الاقوامی ماہرین نے اس مقدمے کو غیر منصفانہ قرار دیا تھا۔ مختلف بین الاقوامی اداروں نے بھی بھٹو کے خلاف فیصلہ کو انصاف کے تقاضوں کے خلاف قرار دیا تھا۔
پھانسی کی سزا
4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی کی جیل میں پھانسی دی گئی۔ ان کی پھانسی ایک طویل سیاسی بحران اور قانونی جنگ کے بعد ہوئی۔ اس فیصلے کے بعد عالمی سطح پر پاکستان کے سیاسی نظام اور عدلیہ پر سوالات اٹھائے گئے۔ ان کی موت نے ایک بڑی سیاسی ہلچل پیدا کی اور ان کے حامیوں کے درمیان غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ اس موقع پر “بھٹو زندہ ہے” کا نعرہ گونج اٹھا، جو آج بھی پاکستان میں ان کے سیاسی ورثے کی علامت بن چکا ہے۔
شہادت
4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دی گئی۔ ان کی شہادت نے پاکستانی سیاست میں گہرے نقوش چھوڑے۔ آج بھی وہ پاکستان کے ان چند رہنماؤں میں شامل ہیں جنہیں “عوام کا لیڈر” کہا جاتا ہے۔
ورثہ اور اثرات
بھٹو کی بیٹی، محترمہ بینظیر بھٹو نے ان کے مشن کو آگے بڑھایا اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بنیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی بھٹو کے فلسفے کو اپنا منشور قرار دیتی ہے۔
“بھٹو زندہ ہے” کا نعرہ ان کی سیاسی شہادت کی گواہی دیتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نہ صرف ایک سیاستدان تھے بلکہ ایک فلسفہ تھے، ایک سوچ تھے، ایک تحریک تھے۔ ان کی زندگی، جدوجہد اور قربانی آج بھی لاکھوں دلوں کو متاثر کرتی ہے۔ ان کی برسی 4 اپریل کو ہر سال منائی جاتی ہے، جہاں انہیں ایک عوامی ہیرو کے طور پر خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صدرآصف زرداری کورونا وائرس سے متاثر، آئسولیشن میں منتقل